کوہ پیما عبدالوحید وڑائچ کا جسد خاکی واپس لے آئے

’اطلاع ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ کا موسم ٹھیک ہو گیا ہے اور ان کی لاش کو نیچے لایا جا چکا ہے اور تب ہی پتہ چل سکے گا کہ ان کی موت کیوں ہوئی۔‘’شیرپا بھی کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس آکسیجن بھی کافی مقدار میں تھی، پتا نہیں کیا ہوا۔ جب تک باڈی نہیں ملتی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی لاش اس وقت آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر پڑی تھی۔ اسے واپس لانے کے لیے ایک آٹھ رکنی خصوصی ٹیم تیار کی اور جیسے ہی موسم بہتر ہواانہیں واپس لانے کی مہم کا آغاز کیا.
ماؤنٹ ایورسٹ پاکستانی نژاد سوئس کوہ پیما عبدالوحید وڑائچ جو کوئی بھی پہاڑ سر کر کے تین جھنڈے لہراتے تھےسال 2021 میں پہاڑوں نے اپنے کئی چاہنے والوں کو اپنی طرف بلایا اور وہ متوالے آواز سنتے ہی ان کی طرف کھنچتے چلے گئے۔
وہ چاہے ’تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم‘ گانے پر رقص کرتے ہوئے پاکستان کے محمد سد پارہ ہوں، یا ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والے پہلے ’ویگان‘ بلغاریہ کے اینٹاناس سکاٹو۔
دنیا میں آٹھ ہزار میٹر بلند تمام 14 پہاڑ ایک ہزار دن میں سر کرنے کا ٹارگٹ لے کر اپنے آخری یعنی 8 ویں پہاڑ کے ٹو پر چڑھنے والے کیٹالان کے سرگئی منگوٹے ہوں، یا کے ٹو کو سر کرنے والے آئس لینڈ کے پہلے کوہ پیما جان سنوری ہوں۔یا پھر ریکارڈ وقت میں دنیا کے دو بلند ترین پہاڑ سر کرنے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام بنانے والے چلی کے یوان پبلو پریئٹو، سبھی نے جس دن سے اوپر پہاڑوں کی طرف دیکھنا شروع کیا تو پھر کبھی نیچے کی طرف نہیں دیکھا۔بلندی ہی ان کی زندگی تھی اور وہیں ان کی موت نے انھیں امر کر دیا۔ ان پانچوں کوہ پیماؤں نے اس سال کے ٹو سر کرتے ہوئے جان دی۔

لیکن حال ہی میں ایک اور کوہ پیما جو پیدا تو پاکستان میں ہوئے پر وہ شہری سوئٹزرلینڈ کے تھے، کے ٹو پر نہیں بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد واپس بیس کیمپ کی طرف آتے ہوئے ہلاک ہوئے۔یہ تھے 41 برس کے عبدالوحید وڑائچ جن کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ انھوں نے ساتوں برِاعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو نہ صرف سر کیا تھا بلکہ ان پر پاکستان کا جھنڈا بھی لہرایا تھا۔ یہ ان کی عادت، ایمان اور مشن تھا اور اسے پورا کرنے کے شوق میں وہ جوانی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے۔
عبدالوحید کی موت ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے بعد نیچے اترتے ہوئے بارہ مئی کو ماؤنٹ ایورسٹ سے واپس آتے ہوئے اس مقام پر ہوئی جسے اس کا ’موت کا زون‘ کہا جاتا ہے۔ سطح سمندر سے تقریباً 26 ہزار فٹ اونچے اس مقام کو موت کے زون کا نام وہاں موجود ہلکی ہوا اور اس کے خوفناک موسم کی وجہ سے دیا گیا ہے، جہاں سانس لینا اور اپنا آپ سنبھالنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
عبدالوحید کے ہمراہ 55 سال کے امریکی کوہ پیما پوے لیو بھی تھے اور ان کے لیے بھی یہ سفر آخری ثابت ہوا۔ عبدالوحید نیپال میں کورونا وائرس کی دوسری لہر سے پہلے اپریل میں ہی وہاں پہنچ گئے تھے جب ابھی ماؤنٹ ایورسٹ پر جانے کی کوئی پابندی نہیں تھی۔
کوہ پیمائی کی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کے مطابق عبدالوحید ایورسٹ سر کرنے بعد واپس آ رہے تھے کہ ساؤتھ سمٹ پر ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ان کے ساتھی پوے کی بھی طبیعت یہیں خراب ہوئی اگرچہ وہ ایورسٹ کی چوٹی تک نہیں پہنچ سکے تھے۔
ان کی مدد کے لیے نیچے سے آکسیجن اور دوسرے سامان کے ساتھ ٹیم بھیجی گئی لیکن وہ انھیں نہ بچا سکے۔ عبدالوحید کا تو وہیں انتقال ہو گیا لیکن ریسکیو ٹیم پوے کو، جو ابھی زندہ تھے، اٹھا کر ساؤتھ کول کیمپ تک، جو 25,918 فٹ کی بلندی پر ہے، لے آئی۔ وہاں پہنچنے کے بعد پوے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
خراب موسم کی وجہ سے ٹیم کے اراکین وہاں رک نہیں سکتے تھے اور انھیں تیزی سے نیچے کیمپ پر آنا پڑا۔ اس لیے دونوں لاشیں ابھی تک نیچے نہیں لائی جا سکیں۔
عبدالوحید کے چھوٹے بھائی راشد احمد وڑائج نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلے طبیعت خراب ہونے کی اطلاع آئی اور چند گھنٹوں کے بعد ہی ہمیں فون آیا کہ ان کا انتقال ہو گیا۔‘ان کے مطابق وہ 6 اپریل سے نیپال میں تھے اور اپنے آپ کو موسم اور بلندی کے لیے تیار کر رہے تھے۔عبدالوحید کی موت کی خبر کئی سوئس، جرمن اور انگریزی اخباروں میں چھپی.
عبدالوحید 1980 میں پاکستان کے شہر سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے لیکن 11 سال کی عمر میں انھیں اپنے خاندان سمیت سوئٹزرلینڈ منتقل ہونا پڑا۔ اس ہجرت کے پیچھے ایک واقعہ تھا جس نے نہ صرف عبدالوحید کے ننھے ذہن بلکہ پورے خاندان کو متاثر کیا۔
عبدالوحید کا تعلق احمدی برادری سے تھا اور جب وہ چھ سال کے تھے تو سرگودھا میں ان کے والد پر وہاں کے لوگوں کے ایک گروہ نے مذہب کی بنیاد پر حملہ کیا۔
عبدالوحید کی بہن قرۃ العین نے سوئٹزرلینڈ سے بی بی سی کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے اس حملے کی تفصیل بیان کی اور بتایا کہ کس طرح اس ایک واقعے نے ان کے بھائی کے ننھے ذہن کو متاثر کیا۔
’ہمارے والد کو اطلاع تھی کہ بنیاد پرست افراد کا ایک گروہ ہم پر حملے کا منصوبہ بنا رہا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں پتا تھا کہ یہ کب ہو گا۔ عبدالوحید ہمارے والد کے ساتھ جا رہے تھے کہ وہ لوگ آ گئے۔ ہمارے والد نے میرے بھائی کو کہا کہ تم دور جا کر کھڑے ہو جاؤ، بس قریب نہ آنا۔‘
’ان لوگوں نے ہمارے والد صاحب کو پکڑ کر بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ مارتے گئے اور سات سالہ عبدالوحید دور کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ والد صاحب کو بہت چوٹیں آئیں لیکن شکر ہے ان کی جان بچ گئی۔ اس واقعے کے بعد وہاں رہنا انتہائی مشکل ہو گیا اور پہلے ہم سب ربوا گئے اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی۔‘
’یہ واقعہ ان کے دماغ سے کبھی نہیں نکلا اور وہ اکثر اس کا ذکر کرتے تھے اور شاید یہی وہ ایک واقعہ تھا جس نے کسی نہ کسی طرح عبدالوحید کو اس خطرناک کھیل کی طرف بھی مائل کیا ہو گا کیونکہ اس دن سے ان کے اندر ڈر ختم ہو گیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ موت کہیں بھی اور کبھی بھی آ سکتی ہے۔‘
قرۃ العین کہتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی پاکستان سے محبت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
’مذہب اور عقیدے کے متعلق ضرور دھیان بڑھا لیکن ساتھ ساتھ پاکستان سے محبت بھی رہی۔ اس لیے میرے بھائی نے یہ مشن بنایا ہوا تھا کہ وہ جب بھی کوئی چوٹی سر کریں گے تو تین جھنڈے ساتھ لے کر جائیں گے، سوئٹزرلینڈ، پاکستان اور اپنے عقیدے کا جھنڈا۔ اور انھوں نے ہمیشہ ایسا ہی کیا۔ ہر چوٹی پر یہ جھنڈے لہرائے۔‘
عبدالوحید کے بھائی راشد احمد نے دہرایا کہ ’پاکستان چھوڑنا ہم سب کے لیے ایک بڑی قربانی تھی لیکن بھائی نے پاکستان کو کبھی بھی اپنے ذہن سے نہیں نکالا۔ انھیں پاکستان سے بے پناہ پیار تھا اور کہا کرتے تھے کہ ہمارا رشتہ پاکستان سے ہے اور ہم وہیں سے آئے ہیں۔‘
راشد احمد امریکہ میں ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور انھوں نے ڈاکٹریٹ الیکٹرک کاروں کی چارجنگ پر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بھائی میرے رول ماڈل تھے، میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ چاہے پڑھائی ہو، سکول ہو یا کوہ پیمائی۔ بس کوہ پیمائی میں یوتھ گروپس کی حد تک ہی ان کا ساتھ دیا لیکن پڑھائی میں انھیں کی طرح محنت کی۔‘
عبدالوحید نے لاؤسانے سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کی تھی اور اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے بھی کر رکھا تھا۔ وہ آئی ٹی سیکٹر میں کام کرتے ہوئے اپنا کوہ پیمائی کا شوق پورا کرتے تھے۔
ان کے بھائی کہتے ہیں کہ وہ اپنی مہمات خود ہی فنانس کرتے تھے اور ایورسٹ پر جانے کے لیے بھی انھوں نے کوئی سپانسر نہیں لیا تھا۔ ’یہ ان کا شوق تھا اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اپنے پیسوں سے ہی اسے پورا کریں۔‘
’انھیں بچپن سے ہی ہائیکنگ کا شوق تھا لیکن 2014 میں یہ شوق کوہ پیمائی میں منتقل ہو گیا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ تمام برِاعظموں کی بلند ترین پہاڑیاں سر کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سوئٹزلینڈ کے کلچر نے بھی ان کی بہت مدد کی۔ یہاں سکولوں میں ہی پہاڑوں پر چڑھنا اور اس طرح کی سرگرمیوں کے بارے میں سکھایا جاتا ہے۔‘
نیپال میں کوہ پیمائی کی مہم کا انتظام کرنے والی کمپنی کا تو کہنا ہے کہ دونوں کوہ پیما تجربہ کار تھے اور وہ اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے بالکل تیار تھے لیکن اس مرتبہ اونچائی پر ان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔
’ویسے وہ بہت فٹ انسان تھے اور اپنے آپ کو اس طرح کی مہمات کے لیے فٹ رکھنے کے لیے بہت زیادہ ورزش کیا کرتے تھے۔ اپنے جسم پر 50، 50 پاؤنڈ وزن باندھ کر چلتے تھے کہ ہر طرح کی صورت حال کے لیے تیار رہیں۔‘
عبدالوحید چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی کوہ پیمائی کے شوق کو لے کر آگے بڑھے اور اس لیے وہ 2015 میں اسے بھی، جب اس کی عمر صرف 13 سال تھی، اپنے ساتھ ایک مہم پر لے کر گئے تھے تاہم ان کی بہن قرۃ العین کہتی ہیں کہ انھیں اس شوق سے جڑے خطرات کا بخوبی علم تھا۔
’وہ اپنی بیوی اور فیملی سے بھی کہا کرتے تھے کہ حادثے اور موت کے ممکنہ خطرے کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔ یہ کبھی بھی اور کہیں بھی آ سکتی ہے۔‘
عبدالوحید نے اپنے بیچھے ایک بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں، جن میں سب سے بڑے بیٹے کی عمر 17 سال جبکہ چھوٹے کی 3 سال ہے۔
29 مئی 1953 میں ماؤنٹ ایورسٹ کو پہلی مرتبہ سر کرنے والے نیوزی لینڈ کے سر ایڈمنڈ ہلری نے بجا کہا تھا کہ ’ہم پہاڑ نہیں بلکہ اپنا آپ تسخیر کرتے ہیں۔‘
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ سر ہلری اور ان کے ساتھی شیرپا تینزنگ نورگے نے مئی کے مہینے میں ہی ایورسٹ سر کی تھی۔
احمدیہ جماعت کی تعزیت
سوئٹزلینڈ کی احمدیہ جماعت نے عبدالوحید کی ناگہانی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی فلاحی خدمات کو سراہا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ کہ ’ان کی پروفیشنل کامیابی سے زیادہ انسانیت کے لیے ان کی ان تھک کوششوں یاد رکھا جائے گا۔‘عبدالوحید 2008 سے 2014 تک سوئٹزرلینڈ میں احمدی نوجوانوں کی ایک تنظیم کے صدر بھی تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں