علامہ اقبال کو اپنے اشعار میں یہ مصرعہ مسلمانوں کی زبوں حالی پر کہنا پڑا تھا۔ علامہ نے پورینظم مسلمانوں کی حالت زار پر نصیحت کے رنگ میں لکھی تھی ۔ علامہ اقبال کا تعلق برصغیر سے تھا اور اس لحاظ سے ان کے پہلے مخاطب پاک و ہند اور خصوصا مغربی پنجاب جو ان کا آبائ وطن بھی تھا کے لوگ تھے ۔اب اس نظم پر ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد معاشرہ نے اپنے قومی شاعر کی نصیحت پر کس قدر عمل کیا ہے اس کا اظہار روز مرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات میں بکثرت دیکھا جا سکتا ہے ۔ موٹر وے پر انسانیت سوز درندگی جو واقعہ پیش آیا تھا اس سے سوسائٹی نے کس قدر عبرت حاصل کی اور اس واقعہ نے معاشرہ پر کس قدر اثرات مرتب کئے اس کو جائزہ لیں تو ملک میں ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ پڑھنے کو ملتا ہے ۔ صرف یہ ہی نہی بلکہ ہر شعبہ زندگی جس کا تعلق اخلاقیات سے ہے زوال پذیر ہے ۔ابھی گزرنے والی رات سوشل میڈیا پر لاہور سے تعلق رکھنے والے واقعات بار بار دکھاے جا رہے تھے جن کو دیکھ کر انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ ایک طرف یہ خود ساختہ نعرہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا جو اب ہر ایک کی زبان پر اور حتکہ کورس کی کتابوں کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور دوسری طرف معاشرہ تہزیب و تمدن سے عاری ہوتا جا رہا ہے ۔ ماڈل ٹاون کچہری کی عدالت میں چند وکلاء کی جانب سے مجسڑیٹ کی جس بے دردی سے دھلائ کی گئ اور جس قدر غلیظ فحش گالیوں کا آزادانہ استعمال ہوا کسی مہذب معاشرہ میں اس کا تصور موجود نہی ۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم کہ اپنی زبان سے اقرار کرنے کے باوجود کہ میرا بطور وکیل پریکٹس لائسینس منسوخ ہو جاے گا گالیوں اور ہا کیوں کا ایک جیسا استعمال مسلسل جاری رہا ۔ پولیس کے آنے کے باوجود نہ فحش گالیوں کی رفتار تھمی اور نہ ڈنڈے اور لاٹھیاں برسنی بند ہویں ۔ زمین پر پڑا بے حال خون آلودہ مجسٹریٹ پوری دنیا میں وائرل ہو رہا تھا ۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہی ۔ ابھی چند ماہ پہلے وکلاء کی فوج ایک ہسپتال میں داخل ہو کر ڈاکٹروں کے ساتھ ایسا ہی طوفان بدتمیزی برپا کر چکی ہے ۔ جس کے بعد صلح نامے لکھے گئے اور پھر آئندہ پیش آنے والے واقعہ کا انتظار شروع ہو گیا جو غالبا ہفتہ کے دن پیش آگیا۔
دوسرے واقعہ میں مسلم لیگ کے کارکنان نے رات گئے ان پوسٹروں کو اپنے قبضہ میں لیا جو تحریک انصاف کی طرف سے مسلم لیگیوں کو غدار قرار دینے کے لئے لاہور کے درودیوار پر لگاے جا رہے تھے ۔ اس سیاسی دھینگاہ مستی کے دوران جو زبان استعمال کی گئ وہ قابل شرم اور اسلامی معاشرہ کی توہین کے مترادف ہے ۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ لاھور کے وہ درودیوار جن پر 12 ربیع الاول کے حوالے سے ” اس دہر میں اسم محمد سے اجالا کردے ” کے پوسٹر لگے تھے 13 ربیع الاول کو دو سیاسی پارٹیوں کے درمیان موجود دشمنی کی وجہ سے ان کے بد کلام کارکنوں کے سامنے سرنگوں کھڑے تھے ۔پاکستانی معاشرہ میں انسانیت و شرافت کی بنیادیں ہل چکی ہیں ۔تہزیب و اخلاق کے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں ۔ معاشرہ اخلاقی قدریں کھو رہا ہے ۔ اللہ تعالی نے سورت آل عمران میں اچھے کاموں کا حکم دینے اور برے کاموں سے روکنے کی تلقین کی ہے ۔ حدیث مبارکہ بھی ہے کہ اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے پیارا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔بلکہ معاشرت کی پہلی اینٹ اخلاق حسنہ ہے ۔ حسن اخلاق کے بغیر انسان نہ صرف یہ کہ انسان نہی رہتا بلکہ درندگی پر اترتا آتا ہے اور پاکستانی معاشرہ اسی بیماری کا شکار ہوتا جا رہا ہے ۔