سندھ حکومت کیاواپڈا کے4 منصوبے کی تکمیل کی ذمہ داری نبھالے گا؟

کیاواپڈا کے4 منصوبے کی تکمیل کی ذمہ داری نبھالے گا؟
وفاقی وزیر برائے انفورمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے واپڈا ٹیم کی آمد کا بتاتے ہوئے کہا کہ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے قائم شدہ کو آرڈینیشن کمیٹی نے اپنے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت واپڈا کے ذریعے کے فور منصوبہ مکمل کرائے گی اور سندھ حکومت اضافی کاموں بشمول منصوبے کے روٹ پر پاور پلانٹس اور پمپنگ اسٹیشنز کی تنصیب کی ذمہ دار ہوگی۔امین الحق کا کہنا تھا کہ چوں کہ کے فور پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے لہذا منصوبے پر عملدآمد اور اضافی کام بیک وقت جاری ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ واپڈا ملک میں لاتعداد ڈیم بناچکی ہے اور فی الوقت وہ دیامر بھاشا ڈیم ہر کام کر رہا ہے جس کے پیش نظر اس وفاقی ادارے کے فور منصوبے کی ذمہ داری سنبھال لینے کے اچھے نتائج برآمد ہونگے۔
کے فور پروجیکٹ کے افسران نے سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ منصوبے سے متعلق تمام دستاویزات ایک ہفتے کے اندر واپڈا کے حوالے کردے گا۔ علاوہ ازیں کے فور پروجیکٹ منیجر آفس کسی بھی معاونت کے لیے واپڈا سے رابطے میں رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ آفس نے منصوبے کی کنسلٹنٹ کمپنی کو منصوبے کے دستاویزات طلب کرنے کے لیے 19 اکتوبر کو خط لکھا تھا تاہم ان کی طرف سے اب تک مذکورہ دستاویزات موصول نہیں ہوئے۔
دوسری جانب کنسلٹنٹ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سےپروجیکٹ آفس کو تمام دستاویزات پہلے ہی جمع کرائے جاچکے ہیں اور کمپنی کی توجہ اب مقررہ مدت تک منصوبے کے پی سی ون اور ڈیزائن رپورٹ کو اپ ڈیٹ کرنے پر مرکوز ہے۔
کراچی کو 650 ملین گیلن ڈیلی ایم جی ڈی اضافی پانی کی فراہمی کا کے فور منصوبے کا آغاز سن 2002 میں ہوا تھا اور اس حوالے سے ڈیزائن اور فیزیبلٹی رپورٹ کی تیاری کے لیے کنسلٹنسی کا ٹھیکہ میسرز عثمانی اینڈ کمپنی لمیٹڈ کو دیا گیا تھا۔
اسٹڈی سن 2007 میں مکمل ہوئی تھی لیکن کنسلٹنسی کمپنی نے 9 میں سے 8 مجوزہ روٹس کو فائنل کیا تھا۔
منصوبے کو تین مرحلوں میں بانٹا گیا تھا اور پہلے مرحلے میں 260 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جانا تھا۔ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں 260 ایم جی ڈی اور تیسرے میں 130 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی کی جانی تھی۔
منصوبے کی ابتتدائی لاگت 25 ارب روپے تھی۔ سن 2011 میں منصوبے کا پی سی ون تیار کیا گیا جس کی منظوری قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے سن 2014 میں دی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو منصوبے خرچہ یکساں طور پر اٹھانا تھا۔
سن 2016 میں سندھ حکومت نے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کو کام کا ٹھیکہ دیا تاہم منصوبہ پر کام ڈیزائن میں نقص کی وجہ سے اگست 2018 میں روک دیا گیا۔
سن 2019 میں سندھ حکومت نے نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان نیسپاک کو کے فور کے ڈیزائن پر نظر ثانی کے لیے مقرر کیا۔
کام میں تاخیر کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی رپورٹ میں اس وقت کے سیکریٹری بلدیات کے بقول کنسلٹنٹ میں قابلیت کا فقدان تھا جس کے سبب کے فور کی ناقص منصوبہ بندی کی گئی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ روٹ نمبر 8 کا چناؤ غلط کیا گیا تھا جبکہ تین دیگر روٹس زیادہ موزوں تھے۔
نیسپاک نے ڈیزائن پر اپنی نظر ثانی کی رپورٹ بھی دی جس کے مطابق چنا گیا ڈیزائن غیر موزوں تھا۔ سندھ حکومت نے اکتوبر 2019 میں نیسپاک کی رپورٹ کی روشنی میں مسئلے کے حل کے لیے ایک تکنیکی کمیٹی قائم کی۔
کمیٹی کے سربراہ اس وقت کے سیکریٹری بلدیات روشن علی شیخ تھے جنہوں نے اس مقصد کے لیے ایک سب کمیٹی بنادی تھی۔
دونوں کمیٹیوں نے کنسلٹنٹ اور نیسپاک کے ساتھ 6 اجلاس منعقد کیے جس کے دوران کنسلٹنسی کمپنی اور نیسپاک کے نمائندوں کے مابین گرما گرم بحث بھی دیکھنے میں آئی تاہم ان میٹنگز کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوسکا اور کے فور منصوبہ تعطلی کا جولائی 2020 میں سندھ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ کنسلٹنسی کمپنی ڈیزائن پر نظر ثانی کرکے نیسپاک کے بتائے گئے نقائص دور کرے گی۔شکار ہی رہا۔
اب کوآرڈینیشن کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ منصوبے کو واپڈا کے حوالے کردیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں