Irfan Khan

بدلتے موسم کی نوید ۔ اداریہ

پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کے تواتر کی وجہ سے پاکستان کا عمومی ماحول تنگ نظری کی طرف مائل ہو گیا تھا ۔ درمیان میں آنے والی حکومتیں بشمول جنرل پرویز مشرف اس ماحول کو بدلنے میں ناکام رہیں یا عملا ایسا کرنے میں ان کو کوی دلچسپی نہ تھی ۔ بھلا ہو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جس نے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں نوٹس لیا اور کونے میں دھکیل دی جانے والی اقلیتی کمیونیٹیز کی عزت کی بحالی کے لئے قومی کمشن تشکیل دینے کا حکم جاری کیا ۔ مسلم لیگ کی حکومت کے لئے اس حکم نامہ کی حیثیت محض توجہ دلاؤ نوٹس سے زیادہ نہی تھی اس لئے اقلیتی برادری کو دفاتروں میں دکھے کھانے کے باوجود کچھ حاصل نہ ہو سکا ۔ ایف اے ٹی ایف – فنانشل ٹاسک فورس نے جو مطالبات حکومت پاکستان کے سامنے رکھے تحریک انصاف کی حکومت نے ان کو سنجیدگی سے لیا اور اقلیتی برادری کے مطالبات پر بھی قدم قدم آگے بڑھنا شروع کیا ۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اس کی اولین مثال ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل جس میں پہلے علماء کی بھرمار تھی نے بھی جرات کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لئے روشن خیال چیئرمین ڈاکٹر قبلہ آیاز اور نئی سوچ کے مفکر خورشید ندیم کی کاوشیں رنگ لے آئیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کے معیاد 18 نومبر کو ختم ہو رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس کونسل کو علماء کے تسلط سے آزاد رکھا جاے گا ۔نئ سوچ کے حامل اجتہاد کے قائل مفکرین کو اس کونسل میں جگہ دی جاے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات نے حکومت کی مشکل آسان کی ہے اور بعض ایسے مثبت فیصلے حکومت نے کئے ہیں جن کو کرنے کی جرات فوجی حکمرانوں اور سیاست دانوں کو نہ ہو سکی ۔ مثلا کوئٹہ میں 73 سال سے بند پڑا ہوا گرودوارہ کھول کر سکھوں کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ سری گورو سنگھ صبا گرودوارہ قیام پاکستان کے وقت بند کر دیا گیا تھا ۔ کئ سال پہلے یہاں لڑکیوں کا سکول کھول دیا گیا تھا جو اب دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے ۔ یہ گردوارہ دو سو سال پرانا ہے اور ثقافتی ورثہ ہے جس کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اب وہاں دو وقت عبادت کی جاتی ہے اور اہل علاقہ گورو جی کے لنگر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ بازار میں رونق اور کاروبار بڑھ جانے کی وجہ سے علاقے کے مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے شہر ژوب میں پانچ ہزارسال پرانا مندر بھی اب دوبارہ کھول دیا گیا ہے ۔ علاقے میں کسی نے احتجاج نہی کیا بلکہ لوگ خوش ہیں کہ ایک تاریخی عمارت میں لوگوں کی چہل پہل کھل جانے سے علاقے کو ترقی ملے گی ۔ پشاور سے دس کلو میٹر دور تحصیل باڑھ میں سیکڑوں سال پرانا شمشان گھاٹ تھا جو علاقے میں دہشت گردی کرنے والوں نے بند کروا دیا تھا اب نو سال کے بعد دوبارہ سکھ کمونیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔ 2011 سے ایک مسلمان فیملی مغل جمال اور بخت جمال نے اس شمشان گھاٹ کی رکھوالی کر رہے ہیں ۔ سات میل کی مسافت سے پانی ٹرانسپورٹ کر کے پودوں کو پانی دیا تا شمشان گھاٹ ہرا بھرا رہے تاکہ جب اصل مالک واپس لوٹیں تو بیابانی کا منظر ان کو بد دل نہ کر دے ۔ یہی آخوت و محبت کو وہ عالمی پیغام ہے جو اسلام کی آصل آساس ہے لیکن پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں نے اس کو انسان دشمنی میں بدل دیا ہے ۔ اوپر دی جانے والی مثالوں سے تحریک انصاف کی حکومت کو یہ بات سمجھ آ جانی چاہیے کہ تینوں جگہ عوام نے حکومتی اقدامات کو سراہا ہے اور پاکستان کے لوگ دوسرے مذاہب کے لوگوں کی عبادات میں خلل اندازی کو پسند نہی کرتے ۔ وزیراعظم عمران خان کو مذہبی آزادی کے حوالے سے جرات مندانہ فیصلے کرنے چاہیں اور مٹھی بھر شدت پسندوں سے خائف نہی ہونا چاہیے ۔ اگر عمران خان یہ جرات دکھا دیں تو دنیا میں پاکستان کے بارے میں جو تاثر قائم ہو چکا ہے اس کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا اور دنیا میں پاکستان کی پہچان دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بجاے پر امن اور مذہبی آزادی کے حامل ملک کی ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں