اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سال 2013 میں پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس حملہ کیس میں وزیراعظم عمران خان کی بریت کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے کے مطابق حملہ سال 2013 کو 30اگست کی رات 10بج کر 15منٹ پر ہوا، جب کہ اس کا مقدمہ دوسرے روز درج کروایا گیا۔
تھانہ 2 کلو میٹر سے کم فاصلے پر ہونے کے باوجود واقعہ کا مقدمہ 16 گھنٹے بعد درج کروایا گیا جب کہ مقدمہ فوری درج نہ کرانے کی معقول وجہ ریکارڈ پر نہیں لائی جاسکی۔
تحریری فیصلے میں درج ہے کہ عمران خان کے خلاف قتل، اقدام قتل، دہشت گردی یا دیگر جرائم کا الزام نہیں۔ عمران خان پر بطور سربراہ سیاسی جماعت کارکنان کو اکسانے کا الزام ہے۔
جج راجہ جواد عباس نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ عمران خان پر کارکنان کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر حملہ کرنے کا الزام ہے۔ کیس میں عمران خان کی تقریر کی ویڈیو ریکارڈنگ یا ٹرانسکرپٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
تحریری فیصلے میں یہ بھی درج ہے کہ عمران خان نے کارکنوں کو پتہ تک نہ توڑنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے منع کیا تھا۔ عمران خان پر سرکاری املاک اور اداروں پر حملے کیلئے مشتعل کرنے کے الزامات ناکافی ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پراسیکیوشن کے مطابق 21 ہزار کارکنوں کو وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی ہدایات دی گئیں۔ چند وجوہات کی بنا پر وقوعہ کا مقدمہ صرف 131 لوگوں کے خلاف درج کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ تھا تو 21 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تھی، تو دفعہ144کے باوجود ریڈ زون میں داخل ہو کر دھرنا دینے کی اجازت کیوں دی گئی؟۔
ملزمان کے خلاف خاص جرم کے تحت نہیں بلکہ عمومی نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے۔ پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ مقدمہ سیاسی مخالفت میں درج کیا گیا۔ ایسے شواہد نہیں جو پراسیکیوشن کے کیس کو فائدہ دے سکیں۔
پبلک پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیس کو مزید چلانا عدالتی وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔
