گزشتہ ہفتے فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی گونج ابھی کم نہ ہوئ تھی کہ دو نومبر کی رات آسٹریا کے شہر ویانا میں مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان کی طرف سے اٹھاے جانے والے اقدام سے پانچ شہری ہلاک اور سترہ زخمی ہو گئے ۔ پوری دنیا نے اسے دہشت گردی قرار دیتے ہوے واقعہ کی پر زور مزمت کی ہے ۔ یورپی یونین ممالک کے سربراہان مملکت نے ان دونوں واقعات کو یورپ پر حملہ قرار دیا ہے ۔ فرانس کے صدر ،برطانوی وزیر اعظم اور جرمن چانسلر نے دہشت گردی میں ملوث افراد کو وارننگ جاری کی ہے کہ یورپ کا امن برباد کرنے والوں کو سزا کے بعد ملک بدر کر دیا جاے گا ۔ آسٹریا کے چانسلر نے بھی اپنے فوری خطاب میں قوم سے وعدہ کیا کہ اس حملے کے باقی تمام زندہ کرداروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو ہر حال میں گرفتار کرکے انہیں قانون کے سامنے جوابدہ بنایا جاے گا ۔ اسٹرین چانسلر نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ تنازعہ مسیحوں اور مسلمانوں کے مابین نہی ہے ۔ یہ لڑائ آسٹریا کے عوام اور تارکین وطن کے مابین بھی نہی ہے ۔یہ امن پر یقین رکھنے والی اکثریت اور امن مخالف چھوٹی سی اقلیت کے مابین کوئ جھگڑا بھی نہی ہے ۔یہ تہذیب اور بربریت کے مابین جنگ ہے ۔ اسٹرین چانسلر کا غصہ بجا ہے کہ آسٹریا وہ ملک ہے جہاں سر گزر کر لاکھوں بے حال انسانوں کے قافلے پناہ کی تلاش میں یورپ میں داخل ہوے اور یورپین ممالک نے ان کو پناہ دی ۔پہلا گزین مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت آج بھی یورپی اقوام کی شکر گزار ہے کہ برے حالات میں ان کو چھت مہیا کرنے میں مغرب نے تیل کی دولت سے مالا مال ملکوں سے زیادہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ۔ ہر تالاب میں کوی نہ کوی مچھلی ایسی ہوتی ہے جو تالاب کا پانی گندہ کرنے کا مو جب ٹھہرتی ہے ۔ یورپ میں آنے والے مسلمان اپنی محنت سے ملک کی ترقی میں ایک کردار ادا کر رہے ہیں اور بطور شہری ان کا کردار قابل تحسین ہے ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں بھی جب ہر طرف گولیاں برس رہی تھیں اور لوگ جان بچانے کے لئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے دو ترک نوجوانوں نے جن کی عمریں بیس سال سے کم تھیں زمین پر پڑے ایک زخمی پولیس اہل کار کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر محفوظ جگہ پہنچایا جہاں سے اس کو ایمبولینس پر ہسپتال بھجوایا گیا ۔ ان دونوں بہادر ترک نوجوانوں کے لئے پوری اسٹرین قوم اور حکومت رطبلسان ہے ۔ جو چند شدت پسند مسلمان اپنی مرضی سے ان یورپین ممالک میں آ کر آباد ہوے ہیں ان کو ملکی قوانین کی پاسداری کرنا پڑے گی ۔ یورپ میں قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہی ۔ شدت پسند کاروائیوں کی بدولت یورپی حکومتیں اپنے داخلی قوانین کو سخت تر بنا رہی ہیں ۔ جس کا نقصان ایمگرانٹ کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ اس لئے شدت پسند رحجانات کی حوصلہ شکنی ہونا ضروری ہے اور یہ حوصلہ شکنی ہر سطح پر تنظیموں ، ثقافتی ارگنائزیشن اور عبادت گاہوں میں ہونی چاہیے ۔
