کل بدھ کی صبح سے ایک ہی واقعہ کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جس میں ضلع خوشاب کے شہر قائد آباد میں بنک کے سیکورٹی گارڈ نے اپنے ہی بنک کے مینیجر کو گولی مار کر شہید کر دیا اور شور مچا دیا کہ اس نے توہین مذہب کی تھی ۔ واقعہ کے عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ سیکورٹی گارڈ کے وقت پر ڈیوٹی پر نہ آنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان تکرار رہتی تھی ۔ وقوع کے بعد اچانک لوگوں کا جمع ہو جانا جن میں زیادہ تر مذہبی حلیہ کے حامل تھے ۔ گرفتار شخص کو پولیس کے چنگل سے چھڑوا کر جلوس کی شکل میں نعرے لگاتے ہوے تھانے لے جانا اور تھانے کی چھت پر چڑھ کر ملزم اور اس کے ساتھیوں کا مجمے سے مخاطب ہونا بتا رہا ہے کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ پلاننگ کا حصہ تھا جس میں مقامی پولیس بھی ملوث تھی ۔ بنک مینیجر پر ایک مخصوص فرقہ سے منسلک ہونے کا الزام بھی اسی لیے لگایا گیا تاکہ جاہل سوسائٹی کے افراد کی ہمدردیاں حاصل کر لی جائیں اور مقدمہ کی تفتیش بھی عدم دلچسپی کا شکار ہو جاے ۔ لیکن مارے جانے والے کے بھائی اور ماموں نے اس بارے میں وضاحت جاری کر دی ہے اور ویسے بھی قائد آباد ایک چھوٹا قصبہ ہے جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔
یہ اس نوعیت کا کوی پہلا واقعہ نہی ۔ پاکستان کی سپریم کورٹ یہ کہہ چکی ہے کہ ذاتی رنجشوں اور حتی کہ جائیداد کے تنازعات میں بھی توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے ۔ 13 سالہ عیسائ بچے پر بھی سکول میں توہین مذہب کا الزام لگ چکا ہے ۔25 سال میں جن 60 سے زائد افراد کا ماوراے عدالت قتل ہوا ان پر توہین مذہب یا توہین رسالت کا الزام تھا ۔ توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ایک شخص کو 17 سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے رہائ دلوائ ۔ایک جھوٹے الزام میں زندگی کے بہترین 17 سال بربادی کی نظر ہو گئے ۔
توہین مذہب کا قانون 1860 میں متعارف کروایا گیا تھا ۔ ضیاء الحق کے قدامت پسند طرز حکومت میں اس میں 1977 ,1980,1982 1984 ,1986 میں تبدیلیاں کر کے موجودہ شکل میں موجود ہے۔ آج پاکستان پینل قانون میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا قانون 295/A مزہبی جذبات ابھارنے اور غم و غصہ پھیلانے ۔ 295/B قرآن کی بے حرمتی ۔295/C انحضور کے نام کی بے حرمتی ۔298/A صحابہ کی بے حرمتی کرنا شامل ہیں ۔ ان قوانین کے تحت درج مقدمات میں پولیس کو گرفتاری کا اختیار بھی حاصل ہے ۔
موجودہ واقعہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اور لواحقین کا یہ مطالبہ سو فیصد درست ہے کہ سیکورٹی گارڈ کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جاے ۔ خاندان کے افراد نے مغربی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ہمارے عقیدہ کے خلاف بے بنیاد پراپیگینڈہ کیا جا رہا ہے ۔ایسی صورت حال پیدا کر دی گئ ہے کہ ہم اس وقت اپنے خاندان کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے بھی پریشان ہیں ۔ قارئین کو اس بات سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اس مخصوص فرقہ کے لوگوں کو پاکستان میں کن حالات کا سامنا ہے اور مذہبی آزادی کے حوالے سے پاکستان کو ابھی مزید بہت کچھ کرنا ہے ۔ توہین مذہب سے متعلق قوانین کا خاتمہ ملک میں جاری ماحول میں از حد ضروری ہے ۔