کل ہفتے کے روز امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی کامیابی کو ترکی میں خاص اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن اور ترک صدر طیب ایردوآن کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ نیز نو منتخب صدر ترکی کے حوالے سے اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا چار سالہ دور صدارت بحرانوں اور سیاسی تنازعات میں گذرا۔ امریکا نے کئی بار ترکی پر پابندیوں کی کوشش کی مگر صدر ٹرمپ پابندیوں کے نفاذ کو نظر انداز کرتے رہے۔
ڈیموکریٹک امیدوار اور براک اوباما کے نائب صدر جو بائیڈن نے 273 الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے اپنی جیت کا اعلان کیا ہے۔ سی این این اور نیویارک ٹائمز کے مطابق ریاست پینسلوینیہ کے ووٹوں کی بدولت جو بائیڈن امریکا کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔
ایردوآن کے لیے ایک ڈراؤنا خواب
بائیڈن اس سے قبل ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو متعدد مواقع پر ایک “ظالم” قرار دیتے ہوئے زور دے چکے ہیں کہ ترک صدر کو امریکی مفادات کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
ٹرمپ کی خاموشی کے مقابلے میں بائیڈن نے مشرقی بحیرہ روم میں ترکی کے اقدامات اور سابق چرچ ہایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے خلاف بات کی اور ترکی سے نگورنو قراباغ میں مداخلت بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ترکی کی ایک نیوز ویب سائٹ ‘احوال الترکیہ’ کے مطابق آج کے انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی فتح کے ساتھ ایردوآن واشنگٹن میں اپنا سب سے اچھا حلیف کھو دیا ہے۔ گذشتہ سال ایک قاتل اتحادی کے ظاہری غداری میں شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے خلاف ترکی کو کارروائی کی اجازت دی گئی جب کہ اصل دشمن دولت اسلامیہ ‘داعش’ کو نظر انداز کیا گیا۔
آج انقرہ کو امریکی کانگرس کے اس غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے اس کی سخت دشمنی ہے۔ بائیڈن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خاص طور پر انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی پامالی کے سلسلے میں ترکی کے ساتھ سخت موقف اختیار کرے گا۔ انقرہ کی جانب سے روسی ایس -400 میزائل سسٹم کی خریداری کی وجہ سے پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔
