یورپ کے تین شہروں میں بعض مسلمانوں کی طرف دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائی کا جو فوری ردّعمل دیکھنے میں آیا اس میں ساری یورپی یونین نے بیک زبان ہوکر اس کو اسلامی دہشت گردی سے تشبیہ دی تھی ۔ یورپ میں آباد مسلمان تنظیموں نے ہوش سے کام لے کر ان واقعات کو ردّ کرتے ہوئے یورپی عوام کا ساتھ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا ماحول میں پائی جانے والی تلخی جلد ختم ہو گئی۔ نماز جمعہ کے بعد یورپ کے بیشتر بڑے شہروں میں پر امن جلوس فرانس اور آسٹریا سے اظہار یکجہتی کے لئے نکالے گئے ۔
اس کے بالمقابل پاکستان کے دو شہروں میں ایک ہفتہ کے دوران مذہبی دہشت گردی کے دو واقعات ہوئے تو ان میں پہلا ضلع خوشاب کے قصبہ قائد آباد میں پیش آیا۔ واقعہ کی مذمت کے لئے پورا شہر امڈ آیا جبکہ دوسرا واقعہ پشاور میں ایک 80 سالہ بزرگ محبوب احمد خان جو بس سٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کر رہے تھے کو گولی مار کر ہلاک کر دینے کا ہے ۔ جس کا معاشرہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ دونوں واقعات میں مماثلت یا قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں افراد کو مارنے کے لئے مذہب کی آڑ لی گئی۔ پہلے واقعہ کے سرزد ہونے میں ایک بنیاد موجود تھی چاہے غلط تھی ۔ لیکن دوسرا واقعہ میں ایک خاموش راہ گیر کو صرف اس بنیاد پر جان سے مار دینا کہ وہ احمدی ہے انسانیت کا قتل ہے جس کا نہ تو حکومت نے اور نہ ہی ذرائع ابلاغ نے اس طرح نوٹس لیا جیسا کہ قائد آباد میں ہونے والے واقعہ کو وائرل کیا گیا ۔ اگر جماعت احمدیہ کا ترجمان پریس ریلیز جاری نہ کرتا تو شائد دنیا انسانیت کے قتل کی اس واردات سے بے خبر رہتی ۔ یہ پشاور میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سال تسلسل کے ساتھ پشاور میں احمدیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس کے پیچھے کون سے عناصر کام کر رہے ہیں ان کو قانون کی گرفت میں لانا تحریک انصاف کی حکومت کا کام ہے ۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کی شہرت پنجاب پولیس سے کہیں بہتر ہے ۔ اس کے باوجود احمدیوں کے بارے میں پختون خواہ پولیس کی خاموشی معنی خیز ہے ۔ وائس آف جرمنی صوبہ پختونخواہ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہے کہ شہریوں کے درمیان تفریق کا یہ عمل بیرونی دنیا میں پاکستان کی رسوائی کا مؤجب بنے گا ۔ حکومت کو احمدیوں کی حفاظت کے لئے ضروری اقدامات اٹھانے چاہئیں ۔ یہ معصوم لوگ کب تک اپنے شہر اور ملک میں سماج دشمنی کا نشانہ بنتے رہیں گے ۔ پشاور اور قائد آباد کے دونوں واقعات قابل مذمت اور حکومت کو اس طرف متوجہ کر رہے ہیں کہ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے سدّباب کے لئے عملی اقدامات اٹھائے۔
