Haider Javaid Syed

موسم سرما اور کورونا وبا کی دستک… حیدر جاوید سید

کورونا کی نئی لہر سے دنیا متاثر ہورہی ہے پچھلے چند ماہ کے دوران دنیا بھر میں کورونا وباسے5کروڑ1لاکھ افراد متاثر ہوئے
امریکہ میں چوتھے روز بھی کورونا کے 1لاکھ نئے مریض، اوربھارت میں45 ہزار 674 لوگ متاثرین میں شامل ہیں دنیا کے مختلف ملکوں نے کورونا کی دوسری لہر سے متاثرہ شہروں اور قصبوں میں کرفیو لگا دیا ہے جبکہ پرتگال بھی کورونا سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہوگیا پاکستان میں گزشتہ روز کورونا سے مزید42افراد جاں بحق ہوگئے اب تک مجموعی طور پر
(مارچ سے نومبر تک)6ہزار973افراد جاں بحق ہوئے۔مزید17ہزار804افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔
ادھرحکومت نے کورونا سے بچاو کے لئے نئے ایس او پیز جاری کردیئے۔
شادی بیاہ کی تقریبات میں بوفے پر پابندی لگادی گئی ہے مہمانوں کے درمیان6فٹ کا فاصلہ لازمی ہوگا۔کھانا ڈبوں میں فراہم کیا جائے گا۔دولہادلہن کو روایتی طریقہ سے مبارکباد دینے پر پابندی ہوگی۔
گزشتہ روز کورونا کے1436نئے مریض تشخیص ہوئے۔صورتحال تسلی بخش ہرگز نہیں طبی ماہرین نے اگست میں خبردار کیا تھا کہ اکتوبر کے آخری ہفتہ سے شروع ہونے والی کورونا وباء کی دوسری لہر پہلی لہر کے مقابلہ میں خطرناک ہوگی۔
پچھلے چند ماہ کے دوران ان سطور میں کورونا کے پھیلاو جانی نقصان اور دوسرے مسائل پر تواتر کے ساتھ عوامی شعور اجا گر کرنے کیلئے معروضات پیش کرتا رہا ہوں
کچھ قارئین اور چند دوستوں نے کہا
”یار تم کچھ ضرورت سے زیادہ ہی خوفزدہ ہو”۔سمجھ رہا تھا کہ وہ درحقیقت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ
”خوف پھیلا رہے ہو”۔حالانکہ ایسا نہیں تھا
دستیاب اعدادوشمار اور صورتحال سامنے ہوتو ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہے کہ وہ چار اور کے لوگوں کو خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کرے کہ طبی ماہرین اور حکومت کی ہدایات پر ناک چڑھانے کی بجائے ان پر عمل کیجئے۔
کورونا وباء کی گزشتہ لہر کے دوران متعدد عزیز واقارب اور چند دوست جان کی بازی ہارگئے اب بھی پچھلے پندرہ دنوں کے دوران ہمارے دو بزرگ ملک شفقت حسنین بھٹہ،سید زاہد حسین شمسی اور استاد محترم سید حیدر عباس گردیزی کورونا کا شکار ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے۔تینوں بزرگ70سال سے زائد عمر کے تھے
دو دن اُدھر ایک طبی ماہر سے کورونا کی نئی لہر کے حوالے سے معلومات کی درخواست کی تو انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا
”لوگوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا صورتحال خاصی تشویشناک ہے60سال سے زائد عمر کے افراد کورونا سے زیادہ متاثر ہوں گے”۔
پچھلے چند دنوں کے دوران کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد میں زیادہ تر کی عمر65سال سے اوپر تھی۔حال ہی میں کورونا سے وفات پانے والے اپنے تین بزرگوں کا بالائی سطور میں تذکرہ کر چکا اس حوالے سے یہ بھی عرض کردوں کہ ان بزرگوں کے علاج معالجہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی خاندانی طور پر بھی تینوں بزرگ خوشحال تھے۔
مثال دینے کا مقصد یہ ہے کہ مہنگاترین علاج کروانے کی استطاعت رکھنے والے بھی جان کی بازی ہار گئے۔
اس طور یہ سوچنا ہوگا کہ علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کے باعث عام طبقات کے متاثرین کن حالات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
ملک کی سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں سرکاری طورپر(یعنی مفت)کورونا ٹیسٹ بند کردیئے گئے ہیں۔گزشتہ لہر کے دوران بھی ان سطور میں ناقص انتظامات اور دیگر مسائل کی نشاندہی کی تھی۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ این سی او سی کے اس دعویٰ کو سپریم کورٹ نے بھی تسلیم نہیں کیا تھا کہ ایک مریض کے علاج پر26لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
ہسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان تو ہے ہی لیکن ہمیں اپنے چار اور دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بازاروں،سفری ذرائع اور دوسرے پبلک مقامات پر مشکل سے5فیصد لوگ ماسک پہنے ہوتے ہیں
تو ہم پرستوں کے ریوڑ اب بھی ٹو ٹکو اور جھاڑ جھنکار پر یقین کی جھوٹی کہانیاں سنا رہے ہیں۔
اس سوچ اور صورتحال میں مجھے1970ء کی دہائی کے آخری برسوں میں اچانک منظر عام پر آنے والا پیر سپاہی یاد آگیا۔
ملتان پولیس کے اس کانسٹیبل کی شہرت راتوں رات ملک بھر میں پھیل گئی۔
وہ عوامی اجتماعات میں لاوڈ سپیکروں کے ذریعے پھونکیں مارتا تھا جہاں جاتا بلا مغالبہ ہزاروں اور کہیں لاکھ سوا لاکھ افراد کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا۔
ستم یہ بھی ہوا کہ خود جنرل ضیاء الحق نے جو اس وقت پاکستان کے فوجی سربراہ تھے اپنی چھوٹی صاحبزادی زین ضیاء کے علاج کے لئے پیر سپاہی کو خصوصی طیارے کے ذریعے ملتان سے اسلام آباد بلوایا اور ہوائی اڈہ پر ذاتی طور پر اہلخانہ کے ہمراہ اس کا استقبال کیا۔
اس سے پیر سپاہی کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔اس وقت کے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ طبی ماہر ڈاکٹر ظفر حیدر نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر پیر سپاہی ہی ہر مرض کا علاج ہے تو ہسپتال اور میڈیکل کالجز بند کر دیئے جائیں ریڈیو ٹی وی پر روزانہ پیر سپاہی اپنے دم سے پھونکیں مارے تاکہ پورا ملک شفایاب ہو جائے۔
ماضی کا یہ قصہ آپ کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ خدا کیلئے ڈبہ پیروں ،عطائیوں اور ڈھکوسلوں سے بھرے ٹوٹکو کی بجائے طبی ماہرین کے مشوروں اور ہدایات کے ساتھ حکومت کے جاری کردہ ایس او پیز پر سختی کے ساتھ عمل کو یقینی بنائیں
کورونا کی پچھلی لہر کے دوران ہمارے بعض طرم خان کہتے تھے مغرب اور ہمارے موسم میں فرق ہے۔
لیجئے اب یہ فرق ختم ہوا موسم سرما کے ساتھ کورونا کی نئی لہر دستک دے رہی ہے ۔علاج صرف احتیاط ہے اور طبی اصولوں پر عمل۔”ہم نیک وبد جناب کو سمجھائے دیتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں