Irfan Khan

امریکہ کی نئ منتخب نائب صدر کے پہلے پالیسی بیان میں اسرائیل کی بالادستی قائم رکھنے کا عزم ۔ اداریہ

مریکہ کے صدارتی انتخاب میں جو بیڈن کی کامیابی کو ساری دنیا نے سراہا ہے ۔ صدر ٹرمپ کی بیرونی دنیا کے ساتھ روابط کی پالیسی کو سراہنے والے ممالک کی تعداد بہت محدود تھی ۔ صدر ٹرمپ کا رویہ دنیا کے ترقی یافتہ اہم ممالک کے لئے ناقابل قبول تھا ۔ جرمنی جس کا شمار امریکہ کے اتحادی ملکوں میں ہوتا ہی صدر ٹرمپ سے نالاں تھا ۔ شائد اسی لئی جرمنی کے صدر نے امریکہ کے نئے صدر کو جو تہنیتی پیغام ارسال کیا ہے اس میں اس بات کا ذکر بھی موجود ہے کہ چار سال میں جرمنی نے اتحادیوں پر انحصار نہ کرنے کا سبق سیکھ لیا ہے اور جرمنی اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوے خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ دراصل صدر ٹرمپ نے انٹرنیشنل ٹریڈ پالیسی ، موسمی تغیرات سے متعلق پیرس معاہدہ ، ایران کے ساتھ نیوکلیر پالیسی معاہدہ پر کئے ہوے معاہدات کی پرواہ نہی کی اور اسی طرح چین ،شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ جو رویہ اپنایا اس نے عالمی سیاست کے ماحول کو متاثر کیا ۔ اسی لئے اب جو بیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد دنیا امریکہ سے بہتر پالیسی اور بہتر رویہ کی توقعات رکھے ہوے ہے۔ جو بیڈن نے اپنی تقریر میں حدیث کا حوالہ کیا دے دیا جذباتی مسلمان قوم جو بیڈن کے لئے تعریفوں کے پل باندھ رہی ہے ۔ حالانکہ حدیث کے مندرجات پر غور کریں تو عالمی سیاست کے ہر برے کام میں امریکہ کا ہاتھ رہا ہے اور کس کی ہمت ہے کہ وہ امریکہ کے برے کام پر اس کو ہاتھ یا زبان سے روک سکے ۔ امریکہ کی نائب صدر منتخب ہونے والی کیملا ہیرس نے جو پالیسی بیان دیا ہے اس میں خبردار کرتے ہوے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اسرائیلکی حفاظت اور سلامتی ہماری پہلی ترجیع ہے ۔ یہ کوی ایسی چونکا دینے والا انکشاف نہی ۔ یہ پالیسی امریکہ کی ہمیشہ سے ہے۔لیکن اس کے بعد انہوں نے ہر شعبہ زندگی کا ذکر کر کے ہر فقرے کے بعد اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ۔ حزب اللہ اور ایران اسرائیل کے لئے خطرہ ہیں اور امریکہ ان دونوں کا صفایا کر دے گا ۔غزہ کے بارے میں ہم اسرائیل کی پالیسی میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ شام اور اس ایریا میں جاری دہشت گرد کاروئیوں کو ختم کرنے میں اسرائیل کا ساتھ دیں گے ۔ اسرائیل کی سیکورٹی کے لئے امریکہ 38 بلین ڈالر کا اسلحہ مہیا کرے گا ۔ کمیلا ہیرس کی پوری تقریر فلسطینیوں اور مسلمانوں کے لئے آخری وارننگ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ حالات کی نزاکت اور امریکہ کے عزائم کو دیکھتے ہوے خلیجی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور روابط کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو بیڈن کی حکومت کی طرف سے ابھی مزید دباو مسلمان ممالک پر پڑے گا ۔ بہتر یہی ہے کہ سب مسلمان ممالک مل کر فیصلہ کریں تاکہ فلسطینیوں کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے ۔ دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔راستہ کا پتھر بن کر اب زندگی کا عمل جاری رکھنا اب نا ممکن بنتا جا رہا ہے ۔ اس لئے فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کو امن کے ساتھ حل کرنا ضروری ہو گیا ہے ۔ دوسرا راستہ مسلمانوں کے لئے نقصان کا باعث ہو گا ۔ اپنی سلامتی ہر حال میں مقدم رکھنی چاہیے ۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں