Irfan Khan

گلگت بلتستان میں جاری انتخابی مہم میں وزیراعظم کا سچ بتانے سے اجتناب ۔ اداریہ

آجکل گلگت بلتستان میں انتخابی مہم زوروں پر ہے ۔ حکومت اور متحدہ اپوزیشن میں شامل جماعتیں عوامی اجتماعات میں  لوگوں سے بڑے بڑے وعدے کر کے ان سے ووٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔ گلگت بلتستان کی آئینی و انتظامی پوزیشن ایسی ہے کہ سانس لینے کے لئے مرکزی حکومت کی نمائندہ حکومت کا وہاں ہونا اشد ضروری ہے ۔ اسی لئے مختصر عرصہ میں وہاں پیپلز پارٹی ،ن لیگ کی باری باری حکومت رہی ہے اور گزشتہ الیکشن میں کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجوداب وہاں  تحریک انصاف حکومت کر رہی ہے ۔ اس مجبوری سے با علم ہونے کی بدولت وزیراعظم انتخابی جلسوں میں کلین سویپ کرنے کے دعوی کر رہے ہیں ۔لیکن ملک کی ترقی کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے بلند دعوی کئے ہیں زمینی حقائق اس کے برعکس دکھای دے رہے ہیں ۔ وزیراعظم کا یہ دعوی کہ دو سال میں معیشت کو کھڑا کر دیا ہے اور ہر طرف سے مثبت اعشارے مل رہے ہیں قوم کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ مغربی ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتصادی دباو سے نکالنے کے لئے سعودی عرب اور عرب امارات نے تین تین ارب  ڈالر اسٹیٹ بنک آف پاکستان میں رکھواے تھے ۔ جن میں سے ایک ارب ڈالر سعودی عرب واپس منگوا چکا ہے اور دو ارب ڈالر کی تجدید کرنے سے انکاری ہے ۔ پاکستان کے پاس اس وقت ذرائع مبادلہ کے ذخائر 12 ارب 18 کروڑ ڈالر ہیں جن میں دس ارب ڈالر قرضے کے ہیں ۔اپنا اثاثہ محض دو ارب اٹھارہ کروڑ ڈالر ہے ۔ چین سی پیک کے چکر میں اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان میں کر چکا ہے کہ پاکستان کا بنک کرپسی چلے جانا چین کے وارے میں نہی ۔ وہ اب بھی دو ارب ڈالر سعودیہ کو واپس کرنے کیلئے پاکستان کو قرض دے دے گا لیکن کیا اپ اس صورت حال کو مثبت اشاروں میں شمار کریں گے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کی بد انتظامی کی تازہ مثال گندم پر ایک سو پانچ ارب روپے کی سبسڈی ہے ۔ پہلے چینی پر سبسڈی دے کر صنعت کاروں کو فائدہ پہنچایا۔ انکوائری کمشن بیٹھے ۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جی آئ ٹی بنیں ۔معاملہ آج تک کھٹائی میں پڑا ہے ۔ تحریک انصاف نے 2018 میں اقتدار میں آنے کے بعد ساڑھے پانچ ملین ٹن گندم برآمد کرنے کی اجازت دی ۔ ملک میں گندم کی کمی ہونے پر مارکیٹ میں گندم کی قیمت میں ستر فیصد اضافہ ہوا ۔ اب کل ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ دو پوائنٹ دو ملین ٹن مہنگی گندم درآمد کرنی پڑی ہے ۔ حکومت روزانہ 38 ملین ٹن گندم فلور ملز کو سولہ سو اسی روپے فی چالیس کلو کے حساب سے دے گی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے سبسڈی کی رقم کی جو تقسیم کی ہے اس کے مطابق مرکز کے حصہ میں صرف گیارہ ارب اے ہیں ۔ پنجاب ستر ارب ،سندھ چونسٹھ ارب ،پختونخوا دس ارب اور بلوچستان دس کروڑ روپے ادا کرے گا ۔ کل ہی پنجاب اسمبلی نے مشترکہ قرار داد میں گندم کی قیمت دو ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اگر ان کا دباو کام کر گیا تو سبسڈی کی رقم مزید بڑھ جاے گی ۔ حکومت کی آمدنی تو محدود ہے ۔ اس نے بھی نوٹ چھاپ کر بانٹنے ہیں ۔ اس سے روپے کی قدر گرتی ہے ۔مہنگائ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یہ محض دو مثالیں ہیں ان مثبت اشاروں کی جن کا شور وزیراعظم صاحب نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اٹھا رکھا ہے ۔ پاکستان کے عوام کے نصیب میں ابھی تک وہ سیاست دان لکھے ہیں جو جھوٹ اور منافقت کی بےساکھیوں کے سہارے سیاست کر کے ستر سال سے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں