ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کر کے واپس تہران لوٹ گئے ہیں ۔ ڈھائ سال میں ان کا پاکستان کا یہ چوتھا دورہ تھا ۔ جب تک پاکستان کے سر پر طالبان کی پرورش کا خبط سوار نہی ہوا تھا تہران اور اسلام آباد کے درمیان بہت گہرے مراسم تھے ان میں تیسرا فریق انقرہ تھا ۔آر سی ڈی کے نام سے جس ریجنل کو آپریشن کی خوش کن ابتدا ہوئی تھی اس کے درمیان میں در آئ طالبائزیشن نے آر سی ڈی کو پنپنے نہی دیا ۔ پاکستان سعودی گود میں جا بیٹھا البتہ ترکی اور ایران کے درمیان روابط گہرے ہوتے چلے گئے جس کا فائدہ دونوں ملکوں کے عوام کو پہنچ رہا ہے ۔ ایران ہزاروں مشکلات اور سینکڑوں پابندیوں کے باوجود آج بھی اپنے پیروں پر کھڑا طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ملکوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ترکی بہ ترکی جواب دینے کی پوزیشن میں ہے جبکہ پاکستان سعودی مفادات کی خاطر آر سی ڈی کو غیر فعال بنا کر آج بھی زرمبادلہ کے لئے متبادل راستوں کی تگو دو سے دوچار ہے ۔ اس کی ذمہ دار سب وہ جماعتیں اور حکمران ہیں جو 1980 سے اب تک پاکستان میں برسر اقتدار رہے ہیں ۔ ذاتی منافع کی خاطر ملکی مفادات پر سعودی مفادات کو ترجیح دینے کی قیمت کبھی تو ادا کرنی پڑنی تھی ۔
ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ کے بعد کوئ مشترکہ اعلانیہ تو جاری نہی کیا گیا ۔جب سے پاکستان میں مذاکرات کے لئے دو علیحدہ علیحدہ میزیں سجائ جاتی ہیں مشترکہ اعلانیہ کی انٹرنیشنل روایت دم توڑ چکی ہے ۔اب آئ ایس پی آر اپنا بیانیہ خود جاری کرتا ہے ۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ کی جو تصاویر اخبارات کے صفحات کی زینت بنی ہیں ان سے دو علیحدہ علیحدہ مملکتوں سے مذاکرات کا تاثر ملتا ہے ۔ وزارت خارجہ کی پریس ریلیز تو معمول کے الفاظ پر مشتمل ہے کہ دو طرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات بڑھانے سمیت خطے میں امن سلامتی اور ترقی کے فروغ کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہی ۔ پاک فوج کے ترجمان دفتر، آئ ایس پی آر کے مطابق افغان مفاہمتی عمل ۔پاک ایران سرحدی انتظام کے امور زیر غور اے ۔ البتہ ایرانی وزیر خارجہ نے باڈر مینجمنٹ ، نئے باڈر کراسنگ اور وہاں نئی مارکیٹیں کھولنے کی بات کرنے کے علاوہ دہشت گردی سے نمٹنے میں تعاون پر اطمینان کا اظہار بھی کیا جو غالبا سعودی بادشاہ شاہ سلمان کو پسند نہی آیا ۔ ابھی ایران کے وزیر خارجہ کا جہاز واپسی کے سفر پر تھا کہ شاہ سلمان نے مجلس شوری سے اپنے سالانہ اہم خطاب میں خبردار کیا ہے کہ ایران خطے میں اپنا سیاسی اور نظریاتی ایجینڈا مسلط کرنے کی کوشش میں ہے ۔بدقسمتی سے خطے کے بعض ممالک ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوے ایران کی بے جا حمایت اور پڑوسی ہونے کے اصولوں کو پامال کر رہے ہیں ۔ اپنے اس خطاب میں شاہ سلمان نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل تیار کرنے کے منصوبے کو روکنے کے لئے فیصلہ کن موقف اختیار کرنا ضروری ہے ۔ایرانی نظام خطے کی سلامتی کے لئے خطرہ بن چکا ہے ۔
ایران کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران فیصلہ جات پر شاہ سلمان کا یہ تازہ بیان اثرانداز نہی ہونا چاہیے ۔ جو بائیڈن کے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد محمد بن سلمان کی بلی بھی جلد تھیلے میں واپس اجائے گی ۔ اس لئے ایران کے ساتھ روابط مظبوط کرنے کا جو عمل شروع ہوا ہے وہ جاری رہنا چاہیۓ ۔پاکستان کو ایک روز ان شاہی فر مانوں سے آزاد ہونا ہو گا ۔