ایس ایم ایز کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے سرکاری اقدام کو گردشی قرضوں میں اضافے سے خطرہ ہے

ایس ایم ایز کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے سرکاری اقدام کو گردشی قرضوں میں اضافے سے خطرہ ہے، صدر ایف پی سی سی آئیمیاں انجم نثار کا ای سی سی کی طرف سے ایک اعشاریہ چھ کھرب روپے کے گردشی قرض کو کم کرنے کے لیے ایک ادارہ تشکیل دینے کے اقدام کاخیرمقدم.
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبے میں بڑھتا ہوا گردشی قرضہ ایس ایم ایز کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے حالیہ اقدام کے لیے خطرہ ہے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں انجم نثار نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کو ایک اعشاریہ چھ کھرب روپے کے گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے تجاویز دینے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کمیٹی تشکیل دینے پر سراہتے ہوئے کہا کہ یہ درست سمت میں ایک راست قدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ گردشی قرضوں کا معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے کاروباری لاگت کو کم کرنے کے لیے B1,B2,B3، کنکشنوں کے لیے اضافی یونٹوں کے استعمال پر دی گئی چھوٹ اور صنعتی بجلی کے نرخوں سے پیک آوورز کو ختم کرنے میں مشکلات پیدا کرے گا۔
توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور بجلی کی لاگت میں اضافہ کیے بغیر اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے دو سالوں کے دوران اس کا حجم دوگنا ہوگیا ہے۔اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کو قابو کرنے کے لیے، حکومت نے ماضی میں متعدد بار بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا۔ماضی میں گردشی قرضوں پر قابو پانے کے لیے محصولات میں اضافے کا رجحان مکمل طور پر ناکام ہوا ہے انہوں نے بجلی کے صارفین کے مسائل کے حل کے لیے اس شعبے میں موجود مسائل سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات اور ایک جامع نقطہ نظر اپنانے پر زور دیا۔
وزارت توانائی کی آڈٹ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس گردشی قرضے کا حجم 2018 میں 1 ہزار 415 ارب روپے تھا ، جو جون – 2019-20 میں بڑھ کر 2,150 ارب روپے ہو گیا تھا، جب کہ 2020-21کی پہلے سہ ماہی میں 116 ارب روپے کا مزید اضافہ ہوا اور یہ حیرت انگیز طور پر بڑھ کے 2,266 ارب روپے ہو گیا۔انہوں نے بجلی کے شعبے میں اصلاحات ، بلوں میں زیادتی کے معاملات، تکنیکی نقصانات ،ٹرانسمیشن کے مسائل ، اس شعبے کے اختیارات کی تقسیم، آف گرڈکو فروغ دینے ،قابل تجدید توانائی کے لیے ترغیبات، اور خود سے بجلی پیدا کرنے والوں کو بھر پور ادائیگی پر بھی بات کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت فوری اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی تو بھاری بقایاجات کی وجہ سے بجلی کا شعبہ چل نہ سکے گا۔میاں انجم نثار نے کہا کہ توانائی کے شعبے کی مجموعی اصلاحات میں غیر فعال آئی پی پیز کو بند کرنا ، آئی پی پیز کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کرنا ، حکومت کے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹوں میں اصلاحات لانا ، کارکردگی میں بہتری اور واپڈا پلانٹس کی لاگت میں کمی کو شامل کیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں لاگت کو کم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے اشتراک سے ز رعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی سے بدلنا چاہیے۔انہوں نے خبردار کیا کہ ہمیں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرتے ہوئے گردشی قرضوں کے مسئلے کو حل کرنا ہے ، جن میں ٹیرف کی اصلاح، بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں کی افادیت ، سپلائی چین نیٹ ورک ، اور واجبات کی وصولی بھی شامل ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو ، توانائی کے شعبے کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے کا مسئلہ کثیر الجہتی مسئلہ ہے اور حکومت کو لاگت میں مزید اضافہ سے گریز کرنا چاہئے، خاص طور پر صنعتوں کے لیے۔اطلاعات کے مطابق مالی سال 2020 کی پہلی ششماہی میں گردشی قرضوں میں 243 ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ اس مالی سال کے دوسرے نصف حصے میں 294 ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔
اسی طرح مالی سال 2018-19 کی پہلی ششماہی میں تقریبا 288 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی مالی سال کے دوسرے نصف حصے میں بھی 198 ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ایف پی سی سی آئی کے صدر نے خبردار کیا کہ اس قرض کی ادائیگی کے لیے گردشی قرضہ ٹیکس عائد کرنے یا بجلی کے نرخوں میں اضافے جیسے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جانا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ تاجر برادری توانائی کے شعبے میں چھوٹی چوریاں، لائن لاسز اور بدعنوانیں روکنے کے لیے انتہائی ضروری اصلاحات کا مطالبہ کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے توانائی کے شعبے کی بحالی کا وعدہ کیا ہے اور سبسڈی کے خاتمے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا لیکن توانائی کے شعبے کو مؤثر بنانے کے لیے اصلاحات نافذ کرنے میں ناکام رہی۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومت پیداوار، منتقلی، اور تقسیم کے نقصانات کو ختم کردیتی ، بجلی کی چوری پکڑتی ،اور بجلی کے بقایا واجبات کی وصولی کرتی تو آج گردشی قرضوں کا مسئلہ آج حل ہوچکا ہوتا۔
انہوں نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کے لیے۔ 3 سال کے لیے، بجلی کے نرخوں میں کمی، صنعتی بجلی کے نرخوں سے پیک آورز کے خاتمے۔ B1,B2,B3کنکشن کے لیے اضافی یونٹوں کی کھپت پر 50فیصد کی رعایت اور صنعتی کنکشن کے لیے اضافی کھپت پر 25فیصدکی رعایت ، کے حالیہ فیصلے کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ اس سے پیداواری صلاحیت بڑھے گی ، کم اخراجات ہونگے ، مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی ہوگی ، برآمدات میں اضافہ ، اور روزگار پیدا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا ، “ہم حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور قوم کی خوشحالی اور معاشی ترقی کے لیے حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں