توہین مذہب کے نام پر ہنگامے اور جلوس کی سند اور جواز؟۔۔۔۔۔نعمان محمود

چند روز قبل کسی نجم ولی خان نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ” بس ہمارے نبی کی توہین غلطی سے بھی مت کیجئے” اس مضمون میں انہوں نے اپنے جذبات اور رسول ﷺ سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے مشال خان کے طلباء کے ہاتھوں قتل کے حوالے سے لکھا ہے کہ ” ایک شخص نے مجھے کہا کہ اگر یہ الزامات سو فیصد بھی درست ہیں تو بھی معاملہ عدالت میں جانا چاہئے تھا اور میں کہتا ہوں کہ اگر میں مسلمان ہوں ، اپنے نبی کی حرمت کے تحفظ کی غیرت رکھتا ہوں تو سو فیصد درست ہونے کے بعد تھانے اور عدالت میں جانا اس مجرم کو تحفظ دینے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا”  یہ خطرناک مضمون شائد صرف چند افراد تک ہی محدود رہتا لیکن محترمہ سمیعہ راحیل قاضی صاحبہ نے اسے اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ کے ذریعے ساری دنیا میں مشتہر کردیا اور اسی دن پسرور میں تین خواتین نے توہینِ رسالت کے ایک ملزم کے گھرمیں گھس کر اسے قتل کردیا

                           اس بات میں کوئی شبہ نہیں کے رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کی زندگی کا اثاثہ ہے ۔ یہ نجم ولی خان کا بھی اثاثہ ہے اور ڈاکٹر سمعیہ قاضی صاحبہ کا بھی۔ یہ محبت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھی متاع حیات تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی محبت میں سرشار تھے اور حضرت خالد بن ولید بھی ۔ اب اگر ہم غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا کہ ہے کہ رسول اللہ کے ان جلیل القدر صحابہ کی غیرتِ ایمانی کا تصور اور نجم ولی صاحب کا تصور غیرت ایمانی آپس میں کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا کیونکہ نجم ولی صاحب تو اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ توہین کا الزام درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے سامنے تو روزانہ ایک عورت زبان سے کچھ کہنے کی بجائے عملی طور پر ہمارے دل و جان سے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتی تھی اور اپنے گھر کی چھت سے کوڑا پھینکتی تھی لیکن کسی صحابی نے اس طرح کی غیرت ایمانی کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا نجم ولی اور آج کے ہجوم در ہجوم  دکھا رہے ہیں  اور صحابہ میں سے کسی نے جا کر جاکر اسکا کام تمام نہیں کیا بلکہ اگر وہ گھائل ہوئی تو رسولِ اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے خلقِ عظیم سے۔ اسی طرح رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے چند ایک لوگوں کے قتل کا حکم جاری فرمایا جوکہ اپنی گستاخی میں بھی مشہور تھے۔ ان میں ایک عورت تھی جوکہ عرصہ دراز سے آپ ﷺ کی شان اقدس کے خلاف شعر کہتی تھی لیکن کسی صحابی نے رسولﷺ کے حکم سے پہلے قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے انکا کام تمام نہیں کیا۔ کیا ان صحابہ میں  نعوذ با اللہ غیرتِ ایمانی کی کمی تھی؟ رسول اللہﷺ نے تو فرمایا ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جسکی بھی پیروی کروگے ہدائیت تک پہنچ جاو گے۔

نجم ولی صاحب کس کی پیروی کر رہے ہیں؟

پھر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شرک کے علاوہ کوئی اور گناہ بھی ناقابلِ معافی ہے؟  اگر کوئی بدنصیب ظالم شخص عمدآ توہینِ رسالت کا مرتکب ہو بھی جاتا ہے تو کیا اسکے پاس توبہ کی آپشن ہے؟  اگر اسکو صفائی اور توبہ کا موقع دئیے بغیر قتل کردیا جائے تو کیا یہ عین شرعی ہے؟ پھر ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو عملی طور پر رسول اللہﷺ کے احکامات کی نافرمانی اور تخفیف کر کے دن رات توہین کے مرتکب ہورہے ہیں؟

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ پاکستان میں بعض نوجوان توہین آمیز مواد شائع کر رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں تک پیارے نبی ﷺ کا صحیح اسوہ پہنچایا گیا ہے؟  ان بیچاروں نے تو وہی کچھ دیکھا ہے جو منبروں سے دکھایا جارہا ہے؟ کیا یہ اسوہ رسول ﷺ مولانا فضل الرحمن صاحب میں دیکھیں یا مولوی سمیع الحق صاحب میں یا مولانا طاہر اشرفی صاحب میں؟ انکو اسوہ رسول کی جھلک افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے ہوئے مجاہدین میں نظر آئے گی یا شام و عراق کی امارت میں؟

  پہلے خدارا رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا روشن چہرہ تو ان لوگوں پر عیاں کریں اور پھر دیکھیں کس طرح یہ سب پروانہ وار اس شمع رسالت پر فدا ہوتے ہیں ۔ اگر کبھی کوئی دیوانہ اور نیم پاگل شخص ولی نجم صاحب کی کوئی تحریر پڑھ کر یا ڈاکٹر سمعیہ قاضی صاحبہ کےکسی خطاب کو سن کر اپنی طرف سے اس میں سے کوئی توہین آمیز پہلو نکال کر انکا کام ماورائے عدالت تمام کردے تو؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں