Irfan Khan

ہفتہ رحمتہ العالمین کا آغاز اور “تحریک – لبیک یا رسول اللہ” کا دھرنا ۔ اداریہ

پنجاب کی حکومت کے حکم پر پورے صوبہ میں ہفتہ رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ واسلام منایا جا رہا ہے اس ہفتہ کے دوران محفل نعت ،سیرت کے جلسوں ، سکولوں میں سیرت کے حوالے سے مقابلہ تقاریر ،نعتیہ مشاعروں کے انعقاد کی اپیل کی گئ ہے ۔ اس کا مقصد فرانس کی حکومت پر واضع کرنا ہے کہ فرانس کے صدر نے آزادی اظہار کے نام پر خاکوں کی اشاعت کی جو  کی حمائت کی تھی وہ کسی طور مسلمانوں کو قبول نہی اور مسلمان اپنے پیارے نبی سے جو عقیدت رکھتے ہیں اس کے اظہار کے لئے اپنے عمل میں  کوئی تبدیلی نہ بھی لائیں زبان سے عقیدت کا اظہار زیادہ ضروری ہے ۔

دوسری طرف مذہبی جماعت تحریک لبیک یا رسول اللہ ہے جس نے احتجاج کے لئے وہ راستہ اپنایا ہے جس کا آنحضور صلم کی زندگی سے کوئ تعلق نہی ۔ راولپنڈی فیض آباد پل کنٹینروں کی بھرمار  کی وجہ سے بند ہے ۔ میٹرو بس سروس،و دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی بند کر دیا گیا ہے ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کا سنگم فیض آباد جہاں مری ،آزاد کشمیر ،اور جی ٹی روڈ سے آنے والی  ٹریفک بھی رواں رہتی ہے اس وقت فساد کا منظر پیش کر رہی ہے ۔ درود و سلام تو ایک طرف فساد فی الا عرض میں تحریک کی طرف سے پاور شو پیش کیا جا رہا ہے جس میں نہ جانے انہیں کس کس خفیہ ہاتھ کی حمائت حاصل ہے ۔ ورنہ چند سو کے جلوس کو جو فساد پر آمادہ ہو کنٹرول کرنا ایک حکومت کے لئے چنداں مشکل امر نہی ۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ستر سالوں میں یہی دیکھا گیا ہے کہ پنجاب میں سیاسی ضرورتوں کو مزید ہوا دینے کے لئے مذہبی جماعتوں کو استعمال کیا گیا ۔ جسٹس منیر انکوائری کمشن کے بعد جسٹس فائز عیسی نے بھی اس حقیقت سے کھل کر پردہ اٹھایا ہے ۔ جسٹس فائز عیسی کے تحریر کردہ فیصلے کی ابھی سیاہی خشک نہی ہوئی کہ فیض آباد ایک بار پھر آباد ہو گیا ہے ۔ ابھی چند پہلے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں انڈونیشیا کے ایک طالب علم نے اپنے روحانی لیڈر سے یہ سوال پوچھا کہ آزادی اظہار کے نام پر مغربی ممالک جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اس پر ہم مسلمانوں کی طرف سے کس قسم کا ردعمل ظاہر کیا جانا چاہئیے تو اس کو جواب میں بتایا گیا کہ اگر اپ طاقت سے برائ  کو روکنے کی استطاعت نہی رکھتےتو ان کے لئے دعا کرو اور بہت کثرت سے انحضور صلم پر درود بھیجو ۔ یہی اسلامی تعلیم ہے اور یہی انحضور صلم کا ارشاد ہے۔  احتجاج کو سیاست کی نظر کر دینا یا سیاسی فائدے اٹھانا دنیاوی طاقتوں کے آگے اپنے کو شرمندہ کرنے والی بات ہے ۔ روز کے اخبارات کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اسلامی تعلیم سے کس قدر دوری رکھتا ہے ۔ 

پشاور میں مذہبی دہشت گردی کے واقعات میں آضافہ 
چند ماہ سے پشاور میں ایک مخصوص کمونیٹی کو مذہبی دہشت گردی کا بطور خاص نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہر چند دن کے بعد دوکانوں اور راہ گیروں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اب تک جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مخصوص احمدیہ کمونیٹی کے افراد کی ریکی کی جا رہی ہے اور جب موقعہ ملے ان کے افراد پر حملہ کر کے ان کو مذہبی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔ پشاور شہر صوبہ کا دارالحکومت ہے جہاں باقی صوبے کی نسبت پولیس کی زیادہ نفری موجود ہے ۔اس کے باوجود احمدیہ کمونیٹی کے لوگ غیر محفوظ ہیں ۔ صوبہ پنجاب میں تو یہ روٹین کی بات تھی لیکن اس سال جون سے صوبہ پختونخواہ میں رہنے والے احمدی بھی خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ خان عبدالغفار خان عرف باچا خان امن ،رواداری ،محبت ،بھائی چارہ کی سیاست کے قائل تھے ۔ ان کے صوبہ میں جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئ ہے صوبہ سرحد میں مذہبی آزادی کا ماحول ماند پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔ اس صوبہ میں جمعیت العلمائے اسلام نے بھی حکومت کی لیکن احمدیہ کمیونیٹی کا جان و مال اس دور بھی اتنا غیر محفوظ نہی تھا ۔ حکومت ہر شہری کے جان ومال کی محافظ ہے ۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان تخریب کاروں کے اس منظم گروہ کا پتہ چلاے جو لوگوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں ۔ جن کی وجہ سے پشاور میں رہنے والے احمدی خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں – 

اپنا تبصرہ بھیجیں