کراچی( یواین این) پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی ’سیکٹر کمانڈر‘ کے دفتر لے کر جایا گیا جہاں اُن سے زبردستی کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے۔
کراچی میں جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما راجہ پرویز اشرف کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آئی جی سندھ سے پہلے کہا گیا کہ آپ وارنٹس پر دستخط کریں، گرفتاری رینجرز والے کر لیں گے۔ مگر دستخط کے بعد کہا گیا گرفتاری بھی پولیس ہی کرے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ انھیں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں لگا کہ آج کیپٹن صفدر کی گرفتاری میں سندھ حکومت ملوث ہے، تاہم سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ اقدام کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ حزب مخالف اتحاد میں دراڑ ڈالی جائے مگر ’ہم بچے نہیں ہیں۔‘
مریم نواز کا کہنا تھا کہ انھیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ وہ اس اقدام پر شرمندہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ قائد کے مزار پر اگر کسی نے بانی پاکستان کے ہی قواعد کہے تو اس سے کسی کی بے حرمتی نہیں ہوتی۔ ’ووٹ سے عزت دو سے کسے ڈر لگتا ہے ہمیں پتا ہے۔‘
مریم نواز نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے میں قتل کی دھمکی کی دفعات بھی ڈالی گئی ہیں جبکہ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس ایف آئی آر کا مدعی وقاص احمد انسداد دہشت گردی کورٹ کا مفرور ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے صوبہ سندھ کی پولیس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کی گرفتاری اور ان کے خلاف مزارِ قائد کی ’بیحرمتی‘ کا مقدمہ قانون کے مطابق بنایا گیا ہے اور اس پر شفاف انداز میں تفتیش جاری رہے گی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کیپٹن صفدر، جنھیں عزیز بھٹی تھانے میں رکھا گیا تھا، کو ایک بکتر بند گاڑی میں سٹی کورٹ میں پہنچا دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کی وکلا کی ٹیم بھی وہاں موجود ہے۔ امکان ہے کہ انھیں ریمانڈ کے لیے جوڈیشل میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور مقدمے کی سماعت کی جائے گی۔
ایک ٹویٹ میں سندھ پولیس کا کہنا تھا کہ ’کیپٹن صفدر کی گرفتاری قانون کے مطابق کی گئی اور اس کی تحقیقات غیر جانبدار اور میرٹ پر ہو گی۔‘
اتوار کو اپوزیشن کی حکومت مخالف پی ڈی ایم کے جلسے کے سلسلے میں مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر اعوان سندھ کے شہر کراچی میں موجود تھے کہ جب بانی پاکستان محمد علی جناج کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور بعد میں سندھ پولیس نے پیر کی صبح انھیں نجی ہوٹل سے گرفتار کر لیا۔
سندھ کے صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیگی رہنمائوں نے مزار قائد پر حاضری دی اور وہاں پر یہ واقع پیش آیا۔ ’مزار پر جو واقع پیش آیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وفاق میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے کیس داخل کرنے کے لیے الگ الگ پولیس کو درخواستیں دیں۔ ’پولیس نے درخواستوں کو غیرقانونی قرار دے کر خارج کردیا۔ بعد میں قائد اعظم بورڈ نے پولیس کو درخواست دی۔ پولیس نے قائد اعظم بورڈ کو مجسٹریٹ کے سامنے درخواست دینے کا مشورہ دیا۔
’اس دوراں ایک شخص نے پولیس کو درخواست دی کہ کیپٹن صفدر نے اس کو جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کردی۔ تفتیش سے پہلے چار دیواری کا تقدس پامال کرکے کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنا قابل مذمت ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت سندھ نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا سخت نوٹس لیا ہے۔ ’حکومت سندھ اس معاملے پر اعلیٰ سطحی انکوائری کرے گی۔
’یہ سارا کھیل وفاقی حکومت کی ایماں پر ہوا ہے۔۔۔ اس تمام کارروائی سے پہلے حکومت سندھ کو کسی بھی سطح پر آگاہ نہیں کیا گیا۔‘
سندھ پولیس پر ’دباؤ‘ کا دعویٰ
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ترجمان اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے دعویٰ کیا ہے کہ سندھ پولیس پر وفاق کی جانب سے مبینہ دباؤ ڈال کر نہ صرف مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا بلکہ اُن (کیپٹن صفدر) کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ایک سٹرنگ آپریشن کیا گیا ہے۔ ریاست کی جانب سے سندھ پولیس پر دباؤ ڈال کر یہ آپریشن کرایا گیا ہے، اس کا سیاسی پس منظر بھی ہے کیونکہ گوجرانولہ کے بعد پی ڈی ایم اے کا دوسرا بڑا جلسہ ہوا ہے۔ کراچی میں گرفتاری کر کے یہ تاثر دیا جائے کہ پولیس سندھ حکومت کے زیر اثر ہے۔‘
محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ان کی وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ سے بات ہوئی ہے اور وہ جلد حقائق سامنے لائیں گے۔
گرفتاری کی اطلاع اور مقدمہ
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی اطلاع دیتے ہوئے مریم نواز نے ایک ویڈیو بھی ری ٹویٹ کی ہے جس میں کمرے کا لاک ٹوٹا ہوا زمین پر نظر آ سکتا ہے۔
گرفتاری سے قبل کراچی کے تھانہ بریگیڈ میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر سمیت دو سو افراد کے خلاف مزارِ قائد کی مبینہ بیحرمتی اور وہاں توڑ پھوڑ کے الزامات کے تحت ایف آئی آر کا اندارج کیا گیا تھا۔
وقاص احمد خان نامی شہری کی مدعیت میں درج کیے گئے اس مقدمے میں یہ الزام میں عائد کیا گیا ہے کہ مریم نواز، کیپٹن صفدر اور دیگر افراد نے بانی پاکستان محمد علی جناح کی قبر کی بیحرمتی بھی کی۔
گذشتہ روز کراچی پہنچنے پر مریم نواز نے کیپٹن صفدر اور پارٹی کارکنان کے ہمراہ مزارِ قائد کا دورہ کیا تھا اور وہاں فاتحہ خوانی کی تھی جس دوران کیپٹن صفدر احاطہ مزار میں نعرے بلند کرتے نظر آئے تھے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہنا ہے کہ ’سندھ پولیس کا کیپٹن صفدر کی گرفتاری کا عمل قانون کے احترام کا بیانیہ ہے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ مزارِ قائد پروٹیکشن اینڈ مینٹینینس آرڈر 1971 کے تحت درج کی گئی ہے۔
گرفتاری کے موقع پر بنائی گئی کیپٹن صفدر کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھیں پولیس وین میں بٹھایا جا رہا ہے جس سے قبل وہ وہی نعرے دہرا رہے ہیں جو انھوں نے مزار قائد میں بلند کیے تھے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ ’مادرِ ملت زندہ باد‘ اور ’ایوبی مارشل لا مردہ باد۔‘
جس تھانے میں کیپٹن صفدر کو رکھا گیا ہے اس کے باہر مسلم لیگ ن کے کارکن بھی جمع ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ترجمان اور سندھ کے سابق گورنر محمد زبیر نے کیپٹن صفدر سے ملاقات کی کوشش کی لیکن انھیں ملنے نہیں دیا گیا۔
’گرفتاری سندھ حکومت کی ہدایات پر نہیں ہوئی‘
اس گرفتاری کے بعد حکومتی وزرا اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے اپنا اپنا ردعمل دیا ہے۔ اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے مریم نواز کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ وہ اپنے شوہر کی گرفتاری کی بابت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے پوچھیں کیونکہ سندھ پولیس ان کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
دیگر حکومتی وزرا کی جانب سے بھی سندھ حکومت پر اس گرفتاری کے بعد انگلیاں اٹھائے جانے پر سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی نے واضح کیا ہے کہ ’کیپٹن صفدر کی گرفتاری سندھ حکومت کی ہدایات پر نہیں ہوئی ہے۔‘
ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ ’مزارِ قائد پر کیپٹن صفدر نے جو کچھ کیا وہ نامناسب تھا لیکن جس انداز میں کراچی پولیس نے گرفتاری کی ہے وہ بھی قابل مذمت ہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے صوبے کی پولیس کا یہ اقدام ’پی ڈی ایم (اپوزیشن کی تحریک) کی جماعتوں میں خلیج پیدا کرنے کی سازش کا حصہ ہے جسے ہم ناکام بنائیں گے۔‘
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی کا کہنا ہے کہ ’مزارِ قائد کی بیحرمتی کرنے والے اوباشوں کے خلاف آئی جی سندھ کی فوری کارروائی قابل تحسین ہے۔‘
انھوں نے ٹوئٹر پر مریم نواز کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے وقت ہوٹل میں ان کے کمرے کا دروازہ توڑا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ویڈیو اس کے برعکس ہے۔ آپ کو کوئی ہتھکڑی دکھائی دے رہی ہے یا لگتا ہے کہ انھیں زبردستی گرفتار کیا گیا ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں ’سینکڑوں افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔‘
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڈ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’اطلاعات کے مطابق رینجرز نے سندھ پولیس سے مبینہ طور پر یہ اقدام زبردستی کروایا ہے۔‘
