چند سال پہلے تک خادم حسین رضوی ایک معمولی مدرس تھا جس میں موجود اخلاقیات کے پیمانوں کی گواہی اس کی زبان سے پھسل کر ادا ہو جانے والے وہ فقرات ہیں جن کی شہرت اب ملکوں ملک پھیل چکی ہے ۔ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کی آبیاری کرتے وقت اس کو بے ثمر درخت سے زیادہ اہمیت نہی دی ۔ لیکن وقت کبھی ایک سا رہا نہی کرتا ۔ حماس کو اسرائیلی ایجنسی موساد نے کھڑا کیا لیکن وہ ایران کے ہاتھوں ہائی جیک ہو گئ ۔ کشمیر کے جہاد کے لئے جو گروپس وجود میں لائے گئے ان میں سے کئ ایک بھارت کے ہاتھوں میں کھیل کر پاکستان کے لئے پریشانی کا باعث بنے ۔ غرض جن لوگوں کی پرورش کی جائے یہ ضروری نہی کہ وہ ہمیشہ اپ کے نمک پر پھلتے پھولتے رہیں ۔ خادم حسین رضوی کو بار بار کے دھرنوں نے معمولی مدرس سے اب ایک نظریہ گر بنا دیا ہے ۔ خادم حسین رضوی اب ایک نظریے کا نام ہے جس سے وابستہ لوگ اب پورے پاکستان میں موجود ہیں ۔ سب سے پہلے اکتوبر 2017 میں اس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج کو تین ہفتے تک بلاک رکھا ۔ خاقان عباسی نے بحیثیت وزیراعظم جنرل باجوہ صاحب جو ان دنوں دوبئی میں تھے کو فوج طلب کرنے کا حکم دیا ۔ تو ان کا جواب تھا کہ فوج تو گولی کی زبان میں سمجھانا جانتی ہے اور ان حالات میں گولی چلانا عقلمندی نہی ۔ اس وقت کسی مقصد کے لئے حکمراں جماعت کو دبائو میں لانا مقصود تھا ۔ جب دبائو نکتہ عروج کو چھونے لگا تو فوج خود تحریک لبیک سے مذاکرات کرنے لگی اور 48 گھنٹوں میں معاملات طے پا گئے ۔گھروں کو واپس لوٹنے والوں کو زاد راہ بھی مہیا کر دیا گیا ۔ 2018 اکتوبر میں تحریک انصاف کی حکومت آگئ تو پھر ان کو تحریک لبیک والوں کے ساتھ معاہدہ لاہور سائن کرنا پڑا ۔ تیسری بار آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے رہائی کےحکمنانہ کے خلاف احتجاج کے لئے خادم حسین رضوی لوگوں کو سڑکوں پر لائے تو ہنگامہ آرائی کئ روز جاری رہی ۔ سینکڑوں گرفتار ہوے ۔ خادم حسین رضوی اور ان کے دست راس اشرف قادری نے بھی پہلے گرفتاری اور پھر معافی نامہ تحریر کر کے رہائ پائ ۔ مئ 2020 میں ہائی کورٹ سے اپیلیں منظور ہونے کے بعد شرپسند علماء کا یہ ٹولہ پھر پرانے لب و لہجہ پر اتر آیا ہے ۔ فرانس کے خلاف احتجاجی جلوس کا دائرہ لیاقت باغ تک محدود تھا لیکن ان کو فیض آباد کی راہ دکھانے والوں کا بھی تو تعین ہونا چاہیے ۔ وہاں جو کچھ ہوا اس کا منظر نامہ سوشل میڈیا پر پوری دنیا دیکھ رہی تھی ۔ پاکستان میں جاری رہنے والی اندرونی کشمکش کے پس منظر سے تو دنیا واقف نہی لیکن جو کچھ ڈی چوک اور فیض آباد انٹرچینج پر ہوتا ہے اس سے دنیا میں پاکستان کے بارے میں قیاس آرائیوں کے ابواب کھل جاتے ہیں ۔ دشمن کے ایجینٹ مختلف شکلوں میں یہاں موجود ہیں ۔کسی نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔کوئی لیاری گینگ کا ممبر ہے تو کوئی کابل کا ایجینٹ بن کر دشمن کا کام آسان کرنے میں مددگار ہے ۔ اب ان گروپوں کی تعداد محض چند تک محدود نہی ۔ جن کو بوقت ضرورت ریاست اور اسٹیبلشمنٹ بھی استعمال کرتی ہے ۔۔ کیا جن حکومتوں نے بڑی بڑی معیشتیں کھڑی کیں انہوں نے یہی طور طریق اپنائے تھے ۔ یہ گروپ بندیاں ملک کو کمزور بنا دیا کرتی ہیں ۔ گروپ پالنے سے ملک اپنے پاؤں پر کھڑے نہی ہوا کرتے اور یہی ہم اس خطے میں گزشتہ ستر سال سے دیکھ رہے ہیں ۔ ریاست اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے جتھوں پر توجہ مرکوز کئے ہوے ہیں اور عوام ٹماٹر اور پیاز کی مہنگائ سے نبروازما ہیں ۔ تبدیلی لا کر بھی عوام کو کچھ نہی ملا اور جب تک ریاست اور اسٹیبلشمنٹ میں زیر زمیں جنگ جاری رہے گی رعایا کو بھوک قبول کرنا پڑے گی ۔
