وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب افغانستان میں ایک روز گزار کر واپس اسلام آباد آچُکے ہیں ۔ بحیثیت وزیراعظم ان کا افغانستان کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا البتہ اس سے پہلے دونوں رہنماؤں کے درمیان دو بار ملاقاتیں ہو چکی ہیں ۔ پاکستان اور افغانستان دو قریبی ہمسائے ہونے کے باوجود دونوں کے تعلقات عدم اعتمادی کا شکار رہے ہیں ۔ اور یہ کیفیت پاکستان کے وجود میں آنے کے دن سے چلی آ رہی ہے ۔ درمیان میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتری کی طرف مائل بھی ہوے لیکن اعتماد اور دوستی کی وہ فضا کبھی قائم نہ ہو سکی جو دو اسلامی ہمسایہ ملکوں کے درمیان موجود ہونی چاہیے ۔ خصوصا روسی فوجوں کی افغانستان میں آمد کے بعد جب دونوں ملکوں کے درمیان روابط کی پالیسی پر سول حکومتوں کا کنٹرول ختم ہو گیا تو تعلقات کی نوعیت فوجی حکمرانوں کی مرضی کے تابع ہو کر رہ گئ ۔ اور آج بھی یہی صورت حال ہے ۔ ڈھائی سالہ اقتدار میں وزیراعظم پاکستان کا یہ پہلا افغانستان کا دورہ ہے جبکہ فوجی وفود پہلے بھی دونوں ملکوں میں آ جا چکے ہیں ۔
آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں سب سے اہم ضرورت باہمی اعتماد کی بحالی کی ہے ۔ جس کو دونوں حکومتیں محسوس بھی کرتی ہیں ۔ اسی لئے وزیراعظم پاکستان نے کابل میں کہا کہ ہم اعتماد سازی کے لئے افغان حکومت کی توقعات کو پورا کرنے میں مدد دیں گے ۔ اگر پاکستان، افغانستان کے ساتھ اعتماد بحال کرنا چاھتا ہے تو درحقیقت وزیراعظم کو مدد کرنے کی یقین دھانی کروانے کی بجائے واضح الفاظ میں کہنا چاہیے تھا کہ افغان حکومت کی توقعات پر پورا اتریں گے ۔بشرطیکہ افغان حکومت بھی ہماری توقعات پر پورا اترے ۔ کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان گرم جوشی اور دوستانہ تعلقات میں رکاوٹ طالبان ، پنجابی طالبان و دیگر علیحدگی و شدت پسن تنظیموں کے وہ کارکنان ہیں جنہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور وقتا وقتا پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کاروائیوں میں حصہ دار بنتے ہیں ۔ افغان حکومت اب بھی یہ ماننے کو تیار نہی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کے لئے استعمال ہو رہی ہے ۔ دوسرے طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ افغان حکومت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ۔ جو ایسا ناجائز بھی نہی ۔ دوحہ مزاکرات کی کامیابی کے باوجود افغانستان میں حملوں کا جاری رہنا بھی بد اعتمادی کی فضا کو قائم رکھے ہوے ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے دورہ پاکستان کے باوجود دونوں ملکوں میں اعتماد بحال نہی ہو سکا ۔ دونوں ملکوں میں تجارت سے زیادہ اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہے ۔ اعتماد کے بغیر امن قائم نہی ہوگا ۔ جس کی ضرورت دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کو ہے ۔ چالیس سال لڑائیوں میں گزر گئے ۔ دشمنیاں نسل در نسل منتقل کرنے کا یہ رواج اب ختم ہونا چاہیے ۔ دونوں ملک ایک دوسرے کی سرحدوں کا احترام کریں اور اندرونی مداخلت کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر دیں تا اس خطہ ارض پر انسانی خون کی بے حرمتی کا یہ باب ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاے ۔ افغانستان سے امریکہ کی واپسی کے بعد کابل ،اسلام آباد اور راولپنڈی میں اس سوچ کا بیدار ہونا امن کی قیام کے لئے نہائت ضروری ہے ۔