Irfan Khan

افغان رہنما گلبدین حکمت یار کی پاکستان آمد – اداریہ

افغانستان میں روس کی آمد کے بعد جب ملک میں جاری جنگ میں مقامی جنگجووں کا کردار محدود ہو گیا تو بہت سارے متحارب گروپس کے سرکردہ افراد نے دوسرے ملکوں میں پناہ حاصل کی تھی ۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار جو پاکستان سے قربت
رکھتے تھے پہلے پاکستان اور پھر پناہ کی تلاش میں جرمنی آ گئے تھے ۔
وہ جرمنی سے تعلیم یافتہ انجنیئر تھے ۔ لیکن حالات کی درستگی کے بعد واپس وطن لوٹ گئے ۔ واپس لوٹنے کے بعد ان کو افغانستان کی سیاست میں وہ مقام نہ مل سکا جو انہوں نے بڑی محنت سے بنایا تھا ۔اس کی ایک وجہ ان کی سیاسی جماعت حزب اسلامی کا تین حصوں میں تقسیم ہو جانا بتایا جاتا ہے۔ شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کے انتقال کے بعد ان کے حریف گلبدین حکمت یار کی گنوں کا بارود بھی ٹھنڈا ہو گیا ۔ وہ سیاست کے افق پر موجود تو رہے لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں نے ان سے فاصلہ برقرا راکھا ۔اس کی ایک وجہ ان کا پاکستان کی طرف جھکاؤ بھی ہو سکتا ہے ۔ اب وہ ایک عرصہ کے بعد آج منگل کر روز پاکستان کے تین روزہ دورے پر تشریف لاے ہیں تو پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے پرانے دوست کا پرتپاک خیرمقدم کیا ہے ۔ اپنے حریف عبداللہ عبداللہ کے بعد حکم تیار کی اسلام آباد آمد خاص اہمیت کی حامل ہے
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مزاکرات کی جو بناء امریکہ نے دوحہ میں ڈالی ہے حکمت یار اس کا حصہ نہی۔ 2018 کے انتخابات میں وہ محض سات ہزار ووٹ حاصل کر پائے تھے ۔ دونوں باپ بیٹا اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔ حزب اسلامی میں بھی اب چار گروپ ہیں۔بظاہر گلبدین حکمت یار افغانستان میں کوی فعال کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہی۔اگر یہ دورہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان وسیع تر دو طرفہ روابط کے فروغ کے لئے کی جانے والی کاوشوں کا حصہ ہے تو ایسے دورے دوسرے متحارب گروپس کو بھی کروانے چاہئیں۔
پاکستان کا چار ہزار افغانی طلبہ کو سکالر شپ کے ساتھ اپنی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت مہیا کرنا اسی خیر سیالی کا حصہ ہے ۔ پر امن اور خوشحا
ل افغانستان پاکستان کے وسیع تر قومی مفاد میں ہے لیکن ابھی تک افغان حکومت ، طالبان ،اور امریکہ کے درمیان اختلافات موجود ہیں جو کوی اچھا شگون نہی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں