عبادت سے حسد کرنے والے معاشرہ میں ہفتہ رحمتہ العالمین

ڈیلی ٹائمز لاہور میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق کل جمعہ کے روز ننکانہ ضلع شخوپورہ کے قریبی گائوں “مڑھ بلوچاں” میں ایک احمدی خاندان کے افراد جو اپنے گھر میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جمع تھے ایک نو عمر نوجوان نے گھنٹی دے کر دروازہ پر بلایا اور دروازہ کھولنے والے ڈاکٹر طاہر محمود پر فائر کرکے ان  کو ہلاک کر دیا ۔ فائر کی آواز سن کر جب باقی نمازی دروازے کی طرف بھاگے تو قاتل مسلسل فائرنگ کرتا رہا جس سے ڈاکٹر طاہر کے والد طارق محمود اور دو چچا   سعید احمد اور طییب احمد بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوے ۔ مقامی پولیس افسر محمد شمشیر کے بیان کے مطابق متاثرہ خاندان کی کسی سے کوئ ذاتی دشمنی نہی تھی ۔ ان کا ایک ساتھ اپنے گھر میں خدائے واحد کی عبادت بجا لانا شدت پسند ذہنیت کے لئے حسد کا مؤجب بنا ۔ گولیاں برسانے والا پولیس کی تحویل میں ہے اور پولیس یہ تفتیش کر رہی ہے کہ اس واقعہ کا اصل ماسٹر مائینڈ کون ہے جس نے اس نوجوان کو گولیاں برسانے کے لئے تیار کیا ۔ پشاور میں اوپر تلے احمدیوں کے ساتھ ایسے انسان دشمن  واقعات کے بعد احمدیوں اور پولیس کو اپنی اپنی جگہ چوکنا ہو جانا چاہیے کہ ان کے خلاف کہیں نہ کہیں باسی کڑی میں ابال آ رہا ہے اور ایک جامع سکیم ان کے خلاف زیر زمیں گردش میں ہے ۔ جس کا سد باب کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن جس ریاست کی آنکھوں کے سامنے گلی کوچے احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز  بینرز سے بھرے پڑے ہوں ۔ مساجد میں بڑی باقاعدگی سے احمدیوں سے نفرت کرنے کی تلقین کی جا رہی ہو ۔ پولیس کی حفاظت میں احمدیوں کے خلاف نکالے جانے والے جلوسوں  میں مغلےزاد بکی جا رہی ہوں ۔احمدیوں سے لین دین کرنے کی ممانعت کی تلقین کی جاتی ہو اس کے نتائج یقیناً وہی ہوں گے جن کا مشاہدہ ہم اکثر و بیشتر اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔ پورے معاشرہ سے اس ظلم و بربریت کے خلاف ایک آواز بھی نہی اٹھتی ۔ پنجاب کی حکومت جو رحمة اللعالمین کا ہفتہ منا رہی ہے اس نے بھی اپنے  نہتے شہریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم اور  سراسر بے انصافی پر اپنی زباں بند رکھی ہے ۔ حکومت پنجاب کا یہ وتیرہ ہمیشہ سے ہے اور بقول ملک کے ایک ممتاز قانون دان کے کہ احمدیوں کے بارے میں بات کرتے وقت پر جلتے ہیں یہ ایک ایسی حقیقت جس کو ملک کا باشعور طبقہ محسوس تو کرتا ہے لیکن ساتھ جرات فقدان کا شکار بھی ہے ۔ احمدیوں سے نفرت پاکستانیوں کے مزاج کا حصہ بن چکی ہے اور اس مزاج کی آبیاری کرنے والے ایجنسیوں کے الہ کار بتاے جاتے ہیں ۔ قومی مزاج کی یہ تبدیلی پاکستان کو مہنگی پڑے گی کیونکہ اس ملک میں بہتر (72) فرقوں کے لوگ آباد ہیں ۔ جو سبق احمدیہ دشمنی میں پاکستانی کلچر کا حصہ بنا رہے ہو وہ تمہارے اپنے گلے کا طوق ثابت ہو گا ۔شعور کی راہ اپناؤ کہ بیرونی دشمن گھات لگاے بیٹھا ہے ۔شعور و آگہی کو پاکستانی معاشرہ سے سمیٹنا دشمن کی چال ہے جس کے لئے وہ مذہبی جماعتوں کو استعمال کر رہا ہے ۔ پاکستان میں دین کے نام پر جہالت اور شدت پسندی کا فروغ اسی پلان کا حصہ ہے ۔ چار دیواری کے اندر عبادت گزاروں پر گولیاں برسنا تسلسل زوال کا ایسا المناک سفر ہے جس پر گامزن ہونے والی قوم نے فلاح اور زیست کا راستہ کھی  نہی پایا ۔ پاکستانیو تباہی کے اس سفر سے بچو! حق و باطل کا فیصلہ خدا کی ذات نے کرنا ہے یا پھر وقت نے ۔ اور  دونوں فیصلے اٹل ہوں گے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں