مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کوئی زیادہ اچھے نہیں، ن لیگ کے قائد عسکری حکام کے خلاف بیانات دے چکے ہیں لیکن دونوں کے تعلقات دراصل کب اور کیسے خراب ہوئے؟ سینئر صحافی رئووف کلاسرا نے انکشاف کردیا۔ اپنے یوٹیوب چینل پر رئووف کلاسرا نے بتایا کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان بیان بازی چلتی رہتی ہے لیکن اس وقت اپوزیشن اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی تعلقات قابل ذکر نہیں، ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا، آرمی چیف ہوں یا ڈی جی آئی ایس آئی ، ان کو بڑھا چڑھا کر رکھتے تھے لیکن اب جلسوں میں بھی کہا گیا کہ پہلے چھوٹے صوبوں کے رہنمائوں پر غداری کا الزام لگتا تھا، اب پہلی مرتبہ پنجاب سے بھی غداری کا ٹائٹل دیا گیا۔ ان کا کہناتھاکہ کچھ وقت پہلے جنرل باجوہ کو مدت ملازمت مٰیں توسیع دی گئی اور نوازشریف نے پارٹی کو بیانات سے منع کیا، محمد زبیر ملاقاتیں کرتے رہے لیکن محمد زبیر ، مریم اور نوازشریف نے چپ رکھی، آئی ایس پی آر نے اعلان کیا ۔رئووف کلاسرا کا کہناتھاکہ اس اعلان کے بعد شاید مسلم لیگ ن کو محسوس ہوا ہوگا کہ باتیں بھی نہیں مانی گئیں اور اوپر سے ایسے انکشافات زخم پر مرچیں چھڑکنے والی بات ہے اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام نہیں چل سکتا۔رئووف کلاسرا نے بتایا کہ ان کیساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں نوازشریف اور مریم کے ترجمان محمد زبیر نے اعتراف کیا کہ وہ آرمی چیف کے پاس گئے ، لمبی ملاقاتیں ہوئیں، سیاسی معاملات پر بات چیت بھی ضروری ہوئی لیکن بھیک نہیں مانگی ، محمد زبیر نے آرمی چیف سے یہ بھی کہا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ نیوٹرلائز ہونا چاہیے ، ایک پارٹی کیساتھ کھڑا ہونا محسوس ہونا ، یہ ادارے کے لیے بھی ٹھیک نہیں۔ رئووف کلاسرا کا کہنا تھا کہ انہیں اطلاعات ہیں کہ عسکری حکام کو مریم نوازکے حوالے سے تحفظات تھے،محمد زبیر واپس آئے تو نوازشریف او مریم سے ملے اور پیغام پہنچایا کہ ادھر سے بالکل دروازے بند ہیں ، نئی ڈیل کے چانسز نہ ہونے کے امکان ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کا موقف تھا کہ قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف ہم نے بنایا، مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ووٹ ڈالا اور اب کیپٹن صفدرکوبھی گرفتار کیاگیا ۔ رئووف کلاسرا کاکہناتھاکہ نواز شریف کے کیمپ میں علم بغاوت بلند کیاگیا، ذاتی ایلیمنٹ آرہاہے ، جوابی بیانیہ آرہا ہے ، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے دیا گیا ووٹ ڈس اون کیاگیا،محمد زبیر اعتراف کرچکے اور شاید آنیوالے دنوں میں میاں نوازشریف بھی غلطی کا اعتراف کریں گے ۔ان کاکہناتھاکہ اب دونوں طرف سے معاملات آگے بڑھیں گے ، تیار رہیں، اب لڑائی پیچھے جانے کا کوئی امکان نہیں، اگلا ٹارگٹ مدت ملازمت میں اضافے کا ووٹ ہوگا۔ رئووف کلاسرا نے بتایا کہ محمد زبیر سے تفصلی بات چیت ہوئی ، میں نے پوچھا کہ اب پالیسی بدلی ہے، مدت ملازمت میں توسیع کیلئے ووٹ ڈالا تھا ، جنرل باجوہ نے دھاندلی کی تو اب تک کیسے ٹھیک رہے ؟ اب اچانک کیوں توپیں لے کر آگئے، جب وقت آیا تھا توا س وقت کھڑے نہیں ہوئے، خود ووٹ بھی دے دیئے اور کوئی بات کرے تو وہ لفافہ بن جاتاہے یا اسٹیبلشمنٹ کا بندہ ہوجاتاہے ۔محمد زبیر نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ باجوہ کی ایکسٹنشن کیلئے ووٹ نہ ڈالا جاتا، پارٹی کے لندن جانیوالے رہنمائوں میں شامل نہ تھا، نوازشریف نے اتفاق کیا تھا کہ ووٹ دے دیں۔ رئووف کلاسرا نے کہا کہ اس ووٹنگ کے بعد بڑی حدتک احساس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوئی ہے ، کچھ عرصہ میں نواز لیگ ابھرتی محسوس ہوئی تھی ، ٹی وی ٹاک شوز وغیرہ میں بھی نمائندگی دکھائی دیتی تھی ۔
