اسلام آباد(یو این این) یورپ کے اکثر ممالک میں کرونا وائرس کے یومیہ متاثرین کی ریکارڈ تعداد سامنے آ رہی ہے۔ اس کے بعد سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین اب اس وبا کی دوسری لہر سے زیادہ “تیسری لہر” کے بارے میں گفتگو کر رے ہیں۔ کوویڈ 19 وائرس گذشتہ برس دسمبر کے اواخر میں چین میں نمودار ہوا تھا۔ روئٹرز نیوز ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر 4.104 کروڑ سے زیادہ افراد کرونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جب کہ اس وبائی مرض کا شکار ہو کر فوت ہونے والوں کی مجموعی تعداد 1127177 تک پہنچ چکی ہے۔ کوویڈ 19 وائرس کے کیسوں کا انکشاف 210 سے زیادہ ممالک اور ریجنز میں ہوا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق صرف یورپ میں 2.5 لاکھ سے زیادہ افراد کرونا کے سبب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ یورپ میں صرف گذشتہ ہفتے کے دوران ہی متاثرین کی تعداد میں 34% کا اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں براعظم امریکا میں یہ تناسب 6% سے زیادہ نہیں رہا۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ایڈہانوم گیبریسس نے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد تمام تر لازمی اقدامات کریں اور اپنے صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں کرونا وائرس کے کیسوں کا سب سے زیادہ اندراج کرنے والے 10 بڑے ممالک میں سے 6 کا تعلق شمالی اور جنوبی امریکا کے براعظموں سے ہے۔ یہ ممالک امریکا، برازیل، ارجنٹائن، کولمبیا، پیرو اور میکسیکو ہیں جب کہ فہرست میں 3 ممالک ہسپانیہ، روس اور فرانس کا تعلق یورپ سے ہے۔ تاہم گذشتہ سات روز کے دوران جن دس ممالک میں کرونا کے یومیہ متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد کا اندراج کیا گیا ان میں 5 یورپی ممالک ہیں۔ ان کے نام فرانس، روس، اطالیہ، چیک ریپبلک اور ہالینڈ ہیں۔ اس کے بعد پولینڈ کا نمبر 12 واں ہے۔ اب تک شمالی اور جنوبی امریکا کے براعظموں میں کرونا متاثرین کی کل تعداد 1.8 کروڑ سے زیادہ ہے۔ ان میں 70 لاکھ امریکا میں اور 50 لاکھ برازیل میں ہیں۔ علاوہ ازیں یورپ میں کرونا کے 80 لاکھ مصدقہ کیس سامنے آ چکے ہیں۔ ان میں صرف روس میں 12 لاکھ متاثرین ہیں۔ تاہم گذشتہ ہفتے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس عرصے میں یورپ میں 7 لاکھ نئے کیس سامنے آئے۔ یہ تعداد براعظم امریکا کی تعداد کے قریب ہے جہاں 8 لاکھ کے لگ بھگ نئے متاثرین کا اندراج ہوا۔
عالمی ادارہ صحت کے یورپ ریجن کے ڈائریکٹر ہنری کلوگ کا کہنا ہے کہ “ہمیں یومیہ بنیاد پر متاثرین اور اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافے کا سامنا ہے جب کہ ہم ابھی موسم سرما سے دو ماہ دور ہیں جس کے دوران عموما موسمی وائرسوں کے پھیلاو¿ کے نتیجے میں طبی اداروں پر دباو¿ بڑھ جاتا ہے “. وباو¿ں کی روک تھام سے متعلق یورپی مرکز نے گذشتہ روز بدھ کو اپنے معمول کے بیان میں واضح کیا تھا کہ “کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کا بلند ترین تناسب گھروں میں اور ان بند جگہاو¿ں میں ہے جہاں حفاظتی تدابیر کا اہتمام نہیں کیا جا رہا۔ اس سلسلے میں سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے، کرونا ٹیسٹ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، متاثرہ افراد کو تنہائی میں الگ تھلگ رکھا جائے، قرنطینہ کے اقدامات کی پابندی کی جائے، ہاتھوں کو دھوتے رہنے کا اہتمام کیا جائے اور چہرے کے ماسک کا استعمال کیا جائے تو آئندہ ہفتوں میں ہم اس پھیلاو¿ کا سلسلہ توڑنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں “. آئرلینڈ یورپی یونین کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کو روکنے کے لیے ایک بار پھر سے مکمل لاک ڈاو¿ن لاگو کر دیا ہے۔ اسی طرح بیلجیم، سلووینیا، آسٹریا، برطانیہ، رومانیہ اور اطالیہ میں بھی نئے اقدامات پر عمل درامد کیا جا رہا ہے۔ اس دوران بند مقامات پر 6 سے زیادہ لوگ اکٹھا نہیں ہو سکیں گے جب کہ کھلی جگہاو¿ں پر جمع ہونے والے افراد کی تعداد 12 سے زیادہ نہیں ہو گی۔ البتہ جنازے میں شرکت ان شرائط سے مستثنی ہو گی۔
