عرب امارات اور دبئی اماراتی ممالک میں دو طاقتور ملک تصور کیے جاتے ہیں جو دیگر عرب ممالک کی پشت پناہی کی وجہ مشرق وسطی میں جارحانہ خارجہ پالیسی کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جس کا مقصد اس خطے میں جمہوری حکومتوں کو خطرات سے دوچار کرنا ہے۔ کسی بھی دیگر ملک کی نسبت عرب امارات نے یمن میں بے رحم اور کرائے کے جنگجووں کی مدد سے یمن میں جمہوریت مخالف پالیسیاں کو شدت سے آگے بڑھایا ہے۔
جنوبی یمن میں جنوبی ٹرانزیشنل کونسل کے تحت عرب امارات علیحدگی پسند گروہوں کی حمایت کر رہا ہے جو کہ یمنی حکومت اور حوتی انصاراللہ کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ایس ٹی سی کی حمایت سے عرب امارات بحیرہ احمر سے بحیرہ ہند تک کے علاقے کو اپنے قبضے میں کرنا چاہتاہے تا کہ ایران سے آنے والی امداد کو روکا جا سکے ۔ مزید برآں عرب امارات حوتی انصاراللہ کے اثر ورسوخ کویمن اور اس کے ساحلوں تک پہنچے سے روکنا چاہتا ہے اگرچہ اپنی افواج اور کرائے کے قاتلوں کی بدولت عرب امارات نے بعض سٹریٹیجک ساحلی علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا ہے جن میں بحرہ احمر کے قریب کے ساحلی علاقے بالہاف اور نشتون شامل ہیں ۔ عرب امارات کے ساتھ ساتھ ابو ظہبی بھی یمن میں اپنی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔
اسرائیل اور عرب امارات کے مابین تعلقات کی بحالی کے بعد ، ابو ظہبی اس خطے میں صیہونی حلیفوں کو داخل کرنا چاہتے ہے اور اس کی کوشش ہے کہ جنوبی یمن اور سٹریٹیجک جزیرے سکوٹرا میں جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کیا جائے ۔

عرب امارات کی طرح تقسیم شدہ یمن اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہے ۔ ایسے وقت میں جب عرب امارات ایس ٹی سی کے ذریعے جنگ زدہ یمن میں اپنا تسلط بڑھا رہا ہے ، اسرائیل بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی خارجہ پالیسی کو مزید آگے بڑھا سکتا ہے۔ اسرائیل بڑے آرام سےبحرہ ہند اور یو شکل کے خطے میں ایران کی حرکت پر نظر رکھ سکتا ہے
یمن کی جنگ اور عرب امارات اسرائیل تعلقات کی بحالی
یمن جنگ کا اسرائیل اور عرب امارات کے مابین تعلقات کی بحالی سے گہرا تعلق ہے۔ مگوئیل کوریا نے جو کہ ابو ظہبی میں 2017 میں امریکی سفارت میں دفاعی اتاشی تھے نے عرب امارات کے بادشاہ محمد بن زید کے دامار اور بھتیجے کی یمن جنگ کے دوران جان بچائی تھی۔ امریکہ نے ایک بہترین طے شدہ منصوبے کے تحت اماراتی شہزادے کو جو کہ یمن آپریشن کے دوران زخمی ہو گئے تھے اپنے فوجیوں کے ذریعے وہاں سے نکال لیا تھا۔ اس وقت جب نوجوان شہزادے کو طبی امداد کے لیے ایک امریکی طیارے کے ذریعے جرمنی میں موجود ایک امریکی فوجی ہسپتال میں داخل کیا گیا ہزاروں مفلوک الحال یمنی امریکہ کے تیار شدہ سعودی اور اماراتی بموں کا شکار ہورہے تھے اور دنیا کے بدترین انسانی بحران کا شکار تھے۔
عبداللہ بن زید النیہان نے جو عرب امارات کے وزیر خارجہ ہیں نے 15 ستمبر کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے موقع پر مگوئیل کوریا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ان کی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اس بیان سے واضح ہے کہ تعلقات کی بحالی کے پیچھے درحقیقت یمن جنگ ہی ہے ۔ اس موقع پر اماراتی شہزادے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے یہاں تک کہا کہ کورریا میرے خاندان کاایک حصہ ہیں۔
عرب امارات اور اسرائیل کے یمن میں اپنے مخصوص مفادات ہیں اوران میں ایران کو ایک طرف کرنا سب سے بڑا مفاد ہے۔ جب کہ ان مقاصد اور مفادات میں اخوان المسلمین سے منسلک تحریکوں کو بھی مشرق وسطی میں ابھرنے سے روکنا ہے۔ دونوں ممالک نے مصر، لیبیا، گلف اور یمن میں اخوان المسلمین کی مخالف پالیسیز کو سپورٹ کیا ہے۔ عرب امارات کو خدشہ ہے کہ اخوان سیاسی اسلام سے طاقت حاصل کر کے ان کی بادشاہت کو شدید خطرات سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس لیے اخوان کی ذیلی تنظیم اصلاح کو یمن میں کمزور کرنے کے لیے عرب امارات نے منصور ہادی کے ساتھ مل کر اس کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی واضح رہے کہ ایس ٹی سی یمن میں امارات کی واحد حلیف جماعت نہیں ہے۔ عرب امارات نے بلواسطہ اور بلا واسطہ دیگر جنگجو گروہوں بشمول القاعدہ کی بھی پس پردہ مدد کی ہے ۔تاہم واشنگٹن کا دوغلا پن دیکھٰیں کہ عرب امارات کی القاعدہ کو مدد سے امریکہ کو کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی کبھی واشنگٹن نے اس پر بات کی ہے۔ تاہم جب بھی حماس یا اخوان کی بات آئی امریکہ نہ فورا نہیں دہشت گرد تنظیمیں قرار دیا۔