اچھا دکھائی دینے کے لیے کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کروانے میں اضافہ

کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کی صنعت سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ مارچ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے سے اب تک اپنی بناوٹ میں بہتری لانے کے خواہشمند افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کی ایک تنظیم سیو فیس نے بتایا کہ برطانیہ میں ویلز سے ای میل اور ویب سائٹ کے ذریعے ان خدمات کے بارے میں پہلے سے زیادہ معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔

اس ایک سال میں چہرے اور گردن پر کام کروانے کے لیے تقریباً 800 افراد نے فون کالز کر کے معلومات لیں جو کہ عام طور پر 500 فی سال تھی، یعنی اس میں 57 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

اسے کاسمیٹکس کے شعبے میں آنے والا ‘زوم بوم’ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ لوگ اب ملنے جُلنے اور کام کاج کے لیے پہلے سے زیادہ ویڈیو کالز کر رہے ہیں۔

کیتھرین ڈڈلی بیکن نے ‘زیادہ پُر اعتماد محسوس کرنے’ کے لیے یہ ٹریٹمنٹ کروانے کا فیصلہ کیا۔

کیتھرین ڈڈلی بیکن
،تصویر کا کیپشنمیک اپ آرٹسٹ کیتھرین ڈڈلی بیکن کہتی ہیں کہ زوم پر اپنا چہرہ روز دیکھ کر انھیں اپنی صورت کے بارے میں زیادہ احساس ہونے لگا

ویلز کے دارالحکومت کارڈف سے تعلق رکھنے والی میک اپ آرٹسٹ کیتھرین اب کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے اپنے کلائنٹس کے ساتھ ویڈیو پر بات چیت کرتی ہیں۔

وہ سالہاسال تک دوسرے لوگوں کی وضع قطع سنوارتی رہی ہیں اور اب اُن کا کہنا ہے کہ زوم پر روزانہ اپنا چہرہ دیکھ دیکھ کر انھیں اپنی شکل و صورت کے بارے میں زیادہ احساس ہونے لگا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘کبھی کبھی عمر بڑھنے پر آپ کے ہونٹ پتلے ہونے لگتے ہیں اس لیے مجھے ہونٹوں میں بھرائی پسند ہے، مگر میں خود کے لیے زیادہ قدرتی صورت پسند کرتی ہوں اور جلد کو ملائم رکھنے کے لیے بوٹوکس کو ترجیح دیتی ہوں۔‘

‘لوگوں نے اپنا اعتماد کھو دیا ہے، بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر جب کو یہ محسوس ہو کہ آپ زبردست دکھائی دیتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ آپ میں بطور شخص عود کر سامنے آتا ہے، اور اگر آپ کو اس سے اچھا محسوس ہو تو یہ کیوں نہیں کروانا چاہیے؟’

انھوں نے مزید کہا: ‘جب (زوم پر) ہمارے خاندان کی کوئز نائٹ ہوا کرتی اور میں نے پورا میک اپ نہ کیا ہوا ہوتا، تو مجھے خیال آتا کہ میں تو خود کو زوم پر دیکھ رہی ہوں، یہ ٹریٹمنٹ کروانے کے بعد آپ مزید پُراعتماد محسوس کرتے ہیں۔’

کاسمیٹکس، میک اپ،
،تصویر کا کیپشنانڈسٹری کا کہنا ہے کہ وہ اس اضافے سے حیران ہیں

کارڈف میں سکن اینڈ فیس کلینک میں کام کرنے والی کاسمیٹک ماہر اینی کارٹ رائٹ کہتی ہیں کہ وہ ٹریٹمنٹ کروانے کے خواہشمندوں کی فون کالز میں اضافے سے بہت حیران ہوئی تھیں خاص طور پر وہ لوگ جو پہلی مرتبہ ایسا کروا رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں: ‘مجھے لگتا تھا کہ عالمی وبا کے دوران لوگوں کی توجہ دیگر بیماریوں کی جانب ہوگی مگر درحقیقت ہم اس تعداد سے بہت حیران ہوئے۔’

اینی بتاتی ہیں کہ ‘لوگوں نے زوم کے ذریعے ویڈیو کالز اور کانفرنسوں کے بارے میں بات کی، کہ کیسے انھیں اچانک احساس ہوا کہ وہ کیسے دکھائی دیتے ہیں۔’

‘ان لوگوں میں سے کچھ وہ ہیں جو سیلفی جنریشن سے تعلق نہیں رکھتے، اس لیے یہ بڑی عمر کے پروفیشنل افراد ہیں جنھیں خود کو سکرین پر دیکھنے کی عادت نہیں ہے، اور نہ ہی وہ سوشل میڈیا پر یہ ورچوئل زندگی گزارتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب اور اس کے ساتھ ساتھ خراب لائٹنگ اور کیمرا زاویوں نے انھیں کلینک سے رابطہ کرنے کی ترغیب دی۔’

سیو فیس کا کہنا ہے کہ لوگوں کے کلینکس سے رابطوں میں اضافے کا مطلب ہے کہ اس صنعت میں کاروبار فروغ پا رہا ہے۔ کچھ کلینکس میں انتظار کی فہرستیں تو دسمبر اور اس سے بھی آگے تک جا چکی ہیں۔

تنظیم کی ڈائریکٹر ایشٹن کولنز نے کہا: ‘ہم حیران رہ گئے تھے۔ ہم صارفین یا ماہرین سے اگلے چند ماہ تک اُتنی ملاقاتوں کی توقع نہیں کر رہے تھے۔’

وہ بتاتی ہیں: ‘انتظار کی فہرستیں طویل تر ہیں اور جیسا کہ پچھلی کساد بازاری میں ہوا تھا، یہ بھی وہ شعبہ ہے جو کساد بازاری سے تقریباً محفوظ ہے۔ طلب میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں