ایف اے ٹی ایف ۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا تین روزہ اجلاس 21-23 اکتوبر تک پیرس میں جاری رہنے کے بعد جمعہ کی شام کو اختتام پزیر ہو گیا ۔ پاکستان کو بڑی حد تک امید تھی کہ اس اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر پابندیوں سے آزاد کر دیا جاے گا ۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہی ہو سکا۔ ابھی فروری 2021 تک پاکستان کر گرے لسٹ میں رہنا ہو گا ۔ایف اے ٹی ایف کے موجودہ صدر جرمنی کے مارکس پلئیر ہیں جنہوں نے اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس میں اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی تفصیلات بیان کیں ۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان سے جن 27 مطالبات کا تقاضا کیا تھا ان میں سے پاکستان 21 سفارشات پر عمل کر رہا ہے ۔ یہ تو معلوم نہی ہو سکا کہ وہ چھ مطالبات کونسے ہیں جن پر عمل درآمد کرنے میں حکومت پاکستان تذزب کا شکار ہے۔ خیال یہی کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق معاشرہ سے انتہا پسندی کا خاتمہ اور مذہبی آزادی سے ہے ۔
ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اسی ٹاسک فورس کی ایشیا پیسیفک کمیٹی نے پاکستان کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی اس میں پاکستان کے اس موقف سے اتفاق نہی کیا کہ پاکستان 27 سے 21 پر عمل درآمد کر رہا ہے ۔ ایشیا پیسیفک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان 27 میں سے 14 پر مکمل عمل اور باقی پر جزوی عمل درآمد کر رہا ہے ۔ ایشیا پیسیفک کی اس رپورٹ نے پاکستان کو گرے لسٹ میں مزید رکھنے میں مدد فراہم کی ۔ ادارے کے صدر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو جب بھی گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ ہوا تو ایف اے ٹی ایف کی ایک ٹیم پاکستان کا دورہ کر کے زمینی حقائق کا جائزہ لے گی اور پھر حتمی فیصلہ کیا جاے گا ۔پاکستان کا نام جون 2018 میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور کل کی میٹنگ کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ ہنوز دلی دور است
ایف اے ٹی ایف کے ممبران ممالک کی تعداد 35 ہے اور گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے 12 ووٹ درکار ہیں ۔گرے لسٹ میں نام ہونے کی وجہ سے عالمی مالیاتی نظام میں پاکستان کی پرائیوٹ کمپنیوں کو قرضہ اور فنانشل گارنٹی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی واضح مثال قومی ایر لائن ہے جس کو طیاروں کی خریداری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے چھ مطالبات کو بھی جلد عملی جامع پہنانا چاہیے تاکہ پاکستان کے پرائیوٹ سیکٹر کو انٹرنیشنل لیول پر جن مشکلات کا سامنا ہے ان کا مدوا ہو سکے.