فرانس یورپ کا اہم ملک ہے جہاں آباد مسلمانوں کی تعداد یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔ وہ مسلمان ممالک جو فرانس کے زیر اثر رہے ان کے اقتصادی حالات جب اپنی خلق کو ان کی ضروریات زندگی پورے طور پر مہیا نہ کرسکے تو مجبوراً لوگوں نے اپنے لئے نئے ٹھکانے تلاش کئے اور یوں فرانس میں کم و بیش مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان جمع ہو گئے ۔ جن کو وہاں ہر قسم کی مذہبی آزادی حاصل ہے۔ البتہ دونوں بڑے مذاہب کے لوگوں کے درمیان ثقافت کا بڑا نمایاں فرق موجود ہے ۔ لباس اور رہن سہن کے مختلف طرئق کی بدولت معاشرہ میں اختلاف کا سر اٹھانا ایک فطرتی عمل ہے لیکن اس اختلاف کی بدولت انسانی جانوں کا ضیائع نہی ہونا چاہیے ۔یورپین ممالک کے قوانین آزادی اظہار اور سوچ کی آزادی پر مشتمل ہیں اس کا یہ مطلب ہر گز نہی کہ سوسائٹی کے دوسرے افراد کی دل شکنی کی جاے ۔پر امن اور قابل تقلید معاشرہ کی تشکیل ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے سے ہی ممکن ہے ۔
فرانس میں گزشتہ ہفتے ایک استاد کی مسلمان شاگرد کے ہاتھوں ہلاکت کا جو واقعہ پیش آیا وہ دونوں پہلووں سے قابل افسوس ہے لیکن اس پر فرانس کے صدر کی طرف سے دیا جانے والا ردعمل اور بھی زیادہ قابل افسوس ہونے کے ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔
ایک سیاست دان اور پھر ملک کا صدر ہونے کے ناطے ان کو ہوش ربا بیان جاری کرنا چاہیے تھا ۔ انہوں نے فرانسیسیوں کو مسلمانوں کی دلآزری کرنے کی کھلی چھٹی دے کر معاشرہ میں دنگ و فساد شروع کرنے کی راہ کھول دی ہے جو خود فرانس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی ۔ سوڈان میں فرانس کے سفارت خانہ کا جلایا جانا ۔انقرہ سے فرانسیسی سفیر کی واپسی ،مسلمان ممالک میں فرانس کی تیار شدہ اشیاء کا بایکاٹ کوی اچھا شگون نہی لیکن اس کی ابتدا کا مؤجب فرانس کے صدر کا وہ بیان بنا ہے جس نے مسلمانوں کو اشتعال دلایا ۔ فرانس میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد جرمنی سے بہت زیادہ ہے ۔ اگر جرمنی کی حکومت اسلام کو جرمنی کا حصہ قرار دے چکی ہے تو فرانس کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔اگر حکومت اسلام مخالف رویہ اپناے گی تو فرانس میں دو تہذیبوں کے درمیان ٹکراو کا خطرہ موجود رہے گا ۔
