گردوں کی حفاظت کیجیے

ثمینہ نیاز احمد
گردوں کا کام انسانی جسم سے فاسد مادے الگ کرنا ہے۔یہ جسم کے اہم ترین اعضا ہیں،جن کی کارکردگی پر بڑھتی عمر اور دوسری بیماریوں کا اثر پڑتا ہے،تاہم گردوں کے عام مسائل اور طبی پیچیدگیوں کا علاج ممکن ہے۔ہمارے ہاں صرف صحت کی سہولتوں کا ہی فقدان نہیں،بلکہ لوگوں میں بیماریوں سے متعلق آگہی نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،جس کی وجہ سے اکثر مریض اس وقت معالج کے پاس پہنچتے ہیں،جب گردوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔
اگر انسان کے گردے خراب ہونے لگیں تو اس کی چند علامات ظاہر ہو جاتی ہیں،لیکن انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ مریض جنرل فزیشن سے رجوع کرتے ہیں اور چند دوائیں کھانے کے بعد افاقہ ہو جائے تو اسے کافی سمجھا جاتا ہے،تاہم اس کے لئے باقاعدہ ماہر معالج کی ضرورت ہوتی ہے،جو بہتر تشخیص اور علاج کر سکتا ہو۔

ان علامات میں عام طور پر کمر کے پچھلے حصے میں نچلی جانب درد ہوتا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ایسا درد گردے کی بیماری کی علامت ہو،لیکن اس کا فیصلہ مستند معالج ہی کر سکتا ہے۔اگر تشخیص اور طبی جانچ سے معلوم ہو جائے کہ اصل مسئلہ کیا ہے تو بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے ۔بعض اوقات پیشاب کرنے میں تکلیف بھی ہونے لگتی ہے۔اس کے علاوہ خارش، خشک جلد اور جلد پر سرخی بھی ظاہر ہو سکتی ہے،تاہم یہ بھی دیگر عام امراض کی علامات ہو سکتی ہیں،مگر اس کے لئے معالج سے رجوع کرنے کے بعد ہی حتمی بات سامنے آسکتی ہے۔
گردوں کا سب سے بنیادی کام جسم سے پیشاب کے ذریعے فاسد مادوں کا اخراج کرنا ہے،لیکن جب یہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے تو یہ عمل متاثر ہوتا ہے اور زہریلے مادے جسم میں ہی رہ جاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں جلد پر سرخی آجاتی ہے اور ساتھ ہی جلد خشک ہو جاتی ہے اور کبھی کبھار اس پر خارش بھی ہوتی ہے۔تھکاوٹ اور کمزوری بھی امراض گردہ کی ایک علامت تصور کی جاتی ہے۔دراصل ہمارا جسم اریتھروپائی ٹن(Erythropoietin) نامی ہارمون پیدا کرتا ہے،جس کی مدد سے خون کے سرخ خلیے پیدا ہوتے ہیں اور ہمارا خون اوکسیجن جذب کرتا ہے،لیکن گردوں میں خرابی کی وجہ سے یہ ہارمون صحیح طرح کام نہیں کرتا اور جسم خون کی کمی کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس کمی کی وجہ سے جسمانی کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور معمولی کام کرنے پر بھی انسان تھکن محسوس کرتا ہے۔
گردے کی خرابی کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں،جن میں بلڈ پریشر اور ذیابیطس سب سے اہم ہیں۔ان بیماریوں کی وجہ سے گردوں میں موجود کروڑوں مادے جن سے گردوں کی ساخت ہوتی ہے،ختم ہونے لگتے ہیں۔گردوں کی کارکردگی کو غذا اور معمولات زندگی میں تبدیلی لا کر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔تمباکو نوشی اور نمک کا استعمال کم کیا جائے۔باقاعدگی سے ورزش اور پانی کا زیادہ پینا گردوں کی کارکردگی پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔
پاکستان میں گردوں کے مختلف امراض کی شرح میں پچھلے چند برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ان میں سے بعض بیماریوں ابتدائی نوعیت کی یا قابل علاج ہوتی ہیں،جب کہ بعض مریض گردوں کی کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق ان امراض سے متعلق آگہی پیدا کی جائے اور لوگوں کو بہتر طبی سہولتیں فراہم کی جائیں تو گردوں کے امراض سے بچاؤ ممکن ہے۔
پاکستان میں ماہر امراض گردہ(نیفرولوجسٹ)اور تنقیہ خون(ڈائیلاسز)کے مراکز بہت کم ہیں،جب کہ لوگوں کی اکثریت بھی اس وقت اسپتال کا رخ کرتی ہے،جب گردے انتہائی خراب ہو چکے ہوتے ہیں۔ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر گردوں کے خراب ہونے کی بڑی اور عام وجوہ ہیں۔انسان کی عمر کے ساتھ گردوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے،اسی لئے بڑی عمر کے لوگوں کو باقاعدہ معائنے اور طبی جانچ کے مختلف طریقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اس سے بروقت کسی مرض کی تشخیص یا خرابی کی نشان دہی ہو سکتی ہے اور فوری علاج ممکن ہوتا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق 40برس کی عمر کے بعدگردوں کا عام معائنہ ضروری ہوتا ہے۔گردوں کی عام بیماریوں میں پتھریاں،تعدیے (انفیکشنز) اور پیشاب کی نالیوں کی تنگی وغیرہ شامل ہیں،جب کہ انتہائی خرابی کی صورت میں گردے بالکل ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ایسا زیادہ تر ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اگر گردے کی خرابی کا ابتدا ہی میں پتا چل جائے تو اس کا علاج کیا جا سکتا ہے،مگر یہاں شہروں کے علاوہ دیہات میں طبی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے مریض تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچتے ہیں۔ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا براہ راست اثر گردوں کے افعال پر پڑتا ہے۔ ایسے مریضوں کو سالانہ بنیادوں پر اپنے گردوں کا معائنہ کروانا چاہیے۔گردوں کی خرابی کی عام طور پر علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور یہ اسی وقت معلوم ہوتا ہے جب گردہ 50سے 60فیصد خراب ہو جاتا ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں