Irfan Khan

پشاور میں تخریب کاری کا واقعہ ۔ اداریہ

آج صبح صوبہ پختونخواہ کے دار الحکومت پشاور میں کوہاٹ روڈ پر واقع ایک مدرسہ میں لیکچر سننے کے دوران دھماکہ ہونے پر ابتدای رپورٹ کے مطابق 8 افراد ہلاک اور 112 زخمی ہوے ۔ جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ 40 افراد کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا لیکن باقی افراد میں شدید زخمی بھی شامل ہیں ۔ کئ افراد کے جسم جھلسے ہوے ہیں اور کئ ایک کے جسموں میں چھرے موجود ہیں ۔ ابھی دو روز قبل بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکہ میں جانی نقصان کا ذکر خلق خدا کی زبانوں پر تھا کہ پشاور میں تخریب کاری کی تازہ کاروائی ہو گئ ۔اس سے قبل کراچی میں بھی ایسا سانحہ ہو چکا ہے ۔ لاکھ دعوے کئیے جائیں کہ دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ۔ ہزاروں سویلین اور فوجیوں کی قربانی دینے کے باوجود ملک میں دہشت گردی کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔
جب بھی سیاست دان ایک دوسرے پر ملک دشمن ہونے اور کسی دوسرے ملک کی زبان بولنے جیسے الزامات لگاتے ہیں تو ملک کے اصل دشمن موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوے تخریب کاری کی کاروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔ جب سے پاکستان میں ایم آر ڈی نے حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تحریک شروع کی ہے اپوزیشن اور حکومت کے اہم اراکین کا ایک دوسرے پر ملک دشمنی کے الزامات لگانا روز کا معمول ہے۔ جب ملک میں بگاڑ اور فساد کا ماحول موجود ہو تو دوسروں کے لئے کاروائیاں کرنا آسان ہو جاتا ہے اور یہی کچھ پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے ۔شمال مغربی سرحدکے قریب ایک طرف افغانستان میں امن کی کوشیشوں میں کامیابی کے آثار نمایاں ہونے شروع ہوئے ہیں لیکن ساتھ ہی وزیرستان میں فوجی قافلوں پر حملوں ، پشاور میں فرقہ وارانہ قتل اور بم دھماکوں میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ایسے تمام واقعات ایک لمبی پلاننگ اور بار بار کی ریکی کے بعد ظہور پذیر ہوتے ہیں۔فوجی قافلوں کی نقل و حرکت کو خفیہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود تخریب کاروں کو فوجی نقل و حرکت کا علم ہونا بتاتا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں سے تخریب کار زیادہ متحرک رہتے ہیں ۔ جبکہ قوم کا کروڑوں روپیہ ان ایجنسیوں پر خرچ ہوتا ہے ۔پشاور میں آج صبح جو واقعہ پیش آیا جس میں 1200 طلبہ درس لے رہے تھے، تخریب کار کی ایک روز کی کاروائی سے ممکن نہی ہوسکتا ۔کہاں تھیں سرکاری ایجنسیاں جب اس تخریب کاری کی پلاننگ ہو رہی تھی ۔ خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی سے غیرملکی ذرائع ابلاغ کے اس پروپیگنڈہ کو تقویت ملتی ہے کہ ایجنسیاں اپنے اصل کام سے صرف نظر کرکے ساری قوت سیاست دانوں کی جاسوسی پر خرچ کر دیتی ہیں ، جبکہ ملک کی بقا تقاضا کر رہی ہے کہ ملک کے تمام اداروں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پالیسی ترک کرتے ہوے مضبوط پاکستان کی خاطر ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئیے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں