امریکہ میں صدارتی انتخاب محض اب چند دن کی بات ہے ۔ آئندہ چار سال کے لئے امریکہ کا منتخب صدر کون ہوگا اور اگر امریکی قوم نے اپنے لئے ایک نئے صدر کا انتخاب کیا تو امریکن فارن پالیسی میں چند تبدیلیوں کے امکانات موجود ہیں ۔لیکن امریکہ میں قائم جمہوریت میں اتنی طاقت ہے کہ آج کے جانے والےفیصلے حکومت کی تبدیلی کے باوجود اتنی آسانی سے تبدیل نہی کئے جا سکتے ۔ اسی لئے انتخاب کے نتائج سے بے پرواہ ہوکر صدر ٹرمپ نے عالمی تناظر کی نئ ضرورتوں کے پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو بھارت بھجوایا جہاں دو روز کی گفت و شنید کے بعد امریکہ اور بھارت کے درمیان پانچ معاہدات پر دستخط ہوے جس میں زیادہ تر کا تعلق دفاعی ٹیکنالوجی سے ہے جس کی فروخت پر اب تک امریکہ نے پابندی لگا رکھی تھی اور اسکو صرف اپنے استعمال کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔ ان معاہدات کو بیکا کا نام دیا گیا ہے۔
BECA – Basic Exchange and Cooperation agreement . ان معاہدات کے تحت امریکہ بھارت کو حساس سیٹیلائٹ ڈیٹا فراہم کرے گا جو اہداف کو نشانہ بنانے میں درست راہنمائی کریگا ۔معاہدہ کے بعد بھارت کو امریکی فوجی سیٹیلاہٹس سے حساس ڈیٹا اور فوجی نقطہ نظر سے انتہائ اہم معلومات اور نقشوں تک رسائ حاصل ہو جاے گی ۔ اس کے علاوہ ارتھ سائنس کے شعبہ میں تکنیکی معاونت ، نیو کلر تعاون میں توسیع،پوسٹل سروسز اور کینسر ریسرچ کے شعبہ میں تعاون سے متعلق معاہدے بھی کئے گئے ہیں ۔ معاہدات پر دستخط کی تقریب کے بعد امریکہ اور بھارت کے چاروں وزراء نے پریس کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں ان میں امریکن نے تو اشاروں میں بھارت کو سیکورٹی کے حوالے سے درپیش چیلنجر میں اس کی پوری مدد کرنے کی یقین دھانی کروای ۔ امریکن وزیر دفاع نے انٹرپیسیفک خطہ کی صورت حال پر خصوصی توجہ کی ضرورت پر زور دیا ۔اس طرح انہوں نے پاکستان کا نام لئے بغیر اس کو شامل کرلیا ۔ وزیر خارجہ کا وار میموریل میوزیم کے دورہ کے دوران دیا جانے والا بیان پاکستان کے لئے قابل توجہ ے جس میں امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ بھارت کی خود مختاری اور دفاع کے لئے اس کی حمائت جاری رکھے گا ۔ ان بیانات کا سہارا لیکر بھارتی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع دونوں نے دہشت گردی کو فرنٹ لائن پر رکھا ہے اور ان معاہدات کو دہشت گرد ممالک کے خلاف استعمال کرنے کا بار بار ذکر کیا ۔ کل ہی کشمیری لیڈر صلاح الدین اور ان کے ساتھ 18 افراد کو دہشت گرد قرار دیا ہے اور یہ سب کے سب بقول بھارت کے پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔اس اعلان کے وقت کراس بارڈر ٹیرارزم کو کسی صورت میں قبول نہ کیا جانے کا ذکر ایک با پھر دوہرایا گیا ۔ پاکستان کی حکومت بھارت کی اس الزام تراشی کا یقیناً نوٹس لے گی اور بروقت جواب دے کر دنیا کو حقیقت سے آگاہ کرے گی۔
بھارت جو کبھی روس کے ساتھ قربت رکھتا تھا اب امریکن لابی کا حصہ ہے ۔ 2002 میں اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اینٹلی جنس کی بنیاد پر ایک سمجھوتا ہوا ۔ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں نیو کلیلائ تعاون معاہدہ ہوا ۔2016 اور پھر 2018 میں بھی امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے ہوے اور اب بیکا معاہدہ ہوا ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک دفاعی نکتہ نظر سے ایک دوسرے کے کتنے قریب آ چکے ہیں ۔ جس کے منفی اثرات کا اثرات سے پاکستان نے اپنے کو محفوظ بنانا ہے ۔ ایک عرصہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی وقت کی نزاکت کو بھانپنے کی صلاحیت سے عاری محسوس کی جا رہی ہے ۔ خلیج ریاستوں کے ساتھ دیرینہ تعلقات میں بھی اب پہلے والا جوش و خروش دکھای نہی دے رہا ۔مسلمان ممالک کا رجحان اب اسرائیل کی طرف ہے ۔ تیل کی دولت سے مالا مال ممالک دو کشتیوں کے مسافر بن کر راج نہی کریں گے ۔ حالات بتا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تنظیم آؤ ای سی بے وقعت ہو کر رہ جاے گی اور بھارت پاکستان کے لئے ایک مستقل خطرہ کا الارم بن کر دنیا کو اپنی طرف متوجہ رکھے گا ۔ پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی اور داخلی سلامتی پر نظرثانی کرکے ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ داخلی اور خارجی محاذ پر اکیلے لڑنا اب دنیا میں ممکن نہی رہا –