وزیراعظم عمران خان نے ماہ اگست میں اپنی حکومت کے دو سال مکمل کر لئے تھے اور اب ان کی حکومت اپنی مدت کے تیسرے سال میں سے گزر رہی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران اور اب اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کے سر پر ایک ہی بھوت سوار ہے کہ وہ پاکستان سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے لیکن اس کے لئے انہوں نے کوی منصوبہ اپنی قوم کے سامنے نہی رکھا ۔ اقتدار سے محروم ہو جانے والے سیاسی رہنماؤں کی کرپشن کے قصے اور نیا پاکستان وجود میں لانے کے لئے اپنا عزم ان کے طرز حکومت کا تقریری منصوبہ ہے ۔برسر زمین کیا ہو رہا ہے اس کی تازہ مثال آدیٹر جنرل آف پاکستان کی سن 2019-2020 کی سالانہ رپورٹ ہے جو اٹھ ماہ کی تاخیر سے جاری کی گئ ہے ۔ اس رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک پاور ڈویژن میں ہی تین کھرب روپے کے پبلک فنڈ کے استعمال میں بے ضابطگیاں پائ گئ ہیں ۔ پاور ڈویژن سے منسلک اداروں کے تین سو اٹھارہ کیسز ایسے ہیں جن میں دو اعشاریہ نو سو کھرب روپے کا صحیح استعمال نہی کیا گیا ۔ یہ اس شعبہ کی کارکردگی بیان کی جا رہی ہے جو عوام کی طرف سے مہیا کردہ سرمایہ پر چل رہا ہے اور حکومت اس محکمہ کا پیٹ بھرنے کے لئے سال میں ایک سے زائد مرتبہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے ۔ اس کے باوجود بتایا یہی جاتا ہے کہ پاور سیکٹر کے مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور پاور سیکٹر دو کھرب روپے کا مقروض ہے ۔ بھلا ہو آدیٹر جنرل آفس کا جس نے یہ راز فاش کیا کہ دو کھرب کا مقروض محکمہ تین کھرب روپے سالانہ بے ضابطگیوں پر خرچ کر دیتا ہے۔
اب یہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا فرض ہے کہ وہ ان تین کھرب روپے خرچ کرنے والوں کے بے نقاب کرے اور قانون کی گرفت میں لا کر احتساب کے نعرہ پر عمل کر کے دکھاے ۔ ماضی میں ریلوے ۔ پی آی اے ۔ سٹیل مل کے ایسے ہی کیسز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں آتے رہے ہیں لیکن عوام کو کبھی ان کے نتائج سے باخبر رکھنے کی ضرورت محسوس نہی کی گئ ۔ یہ تینوں ادارے آج بھی اربوں روپے کے خسارہ پر چل رہے ہیں اور حکومت ان کو سالانہ امداد دینے پر مجبور ہے اس لئے کہ کوئ ان اداروں کو خریدنے کے لئے تیار نہی اور عوام کی سہولت کے لئے ان کا جاری رہنا ضروری ہے ۔ اب یہ تحریک انصاف کی حکومت کا کام ہے کہ وہ پاور سیکٹر میں ایسی اصلاحات کرے کہ وہاں کرپشن کا کھلنے والا دروازہ فورا بند کر دیا جاے اور جو کرپشن کرنے والے ہیں انہیں نشان عبرت بنا دے تاکہ ملک میں کرپشن کرنے والوں کو کان ہو سکیں ۔ اور لوگوں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ پرانا پاکستان نئے پاکستان سے بہتر تھا۔