17 سالہ فیروزہ عزیز کا اکاؤنٹ تب بلاک کیا گیا تھا جب انھوں نے چین میں مسلمانوں کے ‘حراستی مراکز’ پر تنقید کی ایک انوکھی ویڈیو جاری کی تھی جس میں وہ اپنی پلکیں سنوارتے ہوئے چین کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں۔ ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ فیروزہ عزیز کا اکاؤنٹ ان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے بلاک کیا گیا تھا اور اس کا چینی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
ٹک ٹاک پر بیجنگ میں بائٹ ڈانس نامی کمپنی کی ملکیت ہے۔ اس کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں دیگر ممالک میں بنائے گئے مواد کو سنسر نہیں کیا جاتا۔
کمپنی نے کہا ہے کہ یہ ایک ‘انسانی غلطی’ تھی جس کی وجہ سے ویڈیو جمعرات کو ایک گھنٹے کے لیے اتاری گئی۔
تاہم فیروزہ عزیز کمپنی کی وضاحت سے مطمئن نہیں۔
‘کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ایسا ایک غیر متعلقہ طنزیہ ویڈیو کی وجہ سے کیا جو میرے پچھلے اکاؤنٹ سے بھی اتار دی گئی تھی؟ اور ایسا اس وقت ہوا جیسے ہی میں نے تین حصوں پر محیط اویغوروں سے متعلق ویڈیو جاری کی؟ نہیں۔’
فیروزہ عزیز کا کہنا تھا کہ ‘میں اس بارے میں بات کرتی رہوں گی۔ اور میں ٹوئٹر، انسٹاگرام اور دوسری جگہوں جیسے ٹک ٹاک پر اس بارے میں بات کروں گی۔’
‘میں ٹک ٹاک سے اپنا اکاؤنٹ (مختصر عرصے کے لیے) ہٹائے جانے سے ڈرتی نہیں۔ نہ ہی میں ٹک ٹاک سے ڈروں گی۔’
’چین میں ہزاروں بچے والدین سے جدا کیے جا رہے ہیں‘
دوسری جانب امریکہ میں ٹک ٹاک کے حفاظتی امور کے سربراہ ایرک ہین نے وضاحت پیش کی ہے کہ فیروزہ عزیزہ کا اکاؤنٹ رواں ماہ اس لیے ہٹایا گیا تھا کیونکہ انھوں نے اسامہ بن لادن کی تصویر کے ساتھ ایک ویڈیو لگائی تھی۔
‘ہمیں معلوم ہے کہ یہ ویڈیو طنز و مزاح کے لیے لگائی گئی تھی۔ لیکن ایسے معاملات پر ہماری پالیسی سخت ہے۔’
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ٹک ٹاک کی طرف سے کسی صارف کا اکاؤنٹ بلاک کیا جاتا ہے تو وہ اسی ڈیوائس سے نیا اکاؤنٹ نہیں بنا سکتا۔
جمعرات کی صبح فیروزہ کی وائرل ویڈیو کو ٹک ٹاک کی جانب سے ہٹا دیا گیا تھا اور اس کی وضاحت میں ٹک ٹاک نے ‘انسانی غلطی’ کی وضاحت پیش کی تھی۔
ٹک ٹاک کے ترجمان نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’ٹک ٹاک سیاسی پیچیدگیوں کے باعث مواد نہیں ہٹاتا۔‘
تاہم اسی ایپ کے چینی ورژن ’ڈوین‘ پر فیروزہ کی یہ پوسٹ نمودار نہیں ہو سکتی کیونکہ اسے سیاسی طور پر سینسر کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل ٹک ٹاک کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کمپنی نے 15 نومبر کو فیروزہ کا ایک پرانا اکاؤنٹ مستقل طور پر اس لیے بند کیا تھا کیونکہ انھوں نے ایک ایسی ویڈیو لگائی تھی جس نے دہشت گردی سے متعلق مواد کے حوالے سے ٹک ٹاک کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی تھی۔
تاہم 25 نومبر کو انھوں نے فیروزہ کا سمارٹ فون بھی بلاک کر دیا لیکن یہ اقدام چین کے حوالے سے ان کی پوسٹس کی وجہ سے نہیں کیا گیا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا ’ان کے نئے اکاؤنٹ اور اس پر پلکوں والی ویڈیو سمیت دیگر ویڈیوز بالکل بھی متاثر نہیں ہوئیں اور انھیں لوگ اب بھی دیکھ رہے ہیں۔‘
دوسری جانب چینی حکومت نے کہا ہے کہ ان کیمپس میں دراصل رضا کارانہ طور پر تعلیم اور ٹریننگ دی جاتی ہے حالانکہ ثبوت اس کے مخالف ہے۔
فیروزہ نے اتوار اور پیر کے درمیان چین کے اویغور مسلمانوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے تین ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔
پہلی ویڈیو کو ایپ پر 14 لاکھ لوگوں نے دیکھا ہے اور تقریباً پانچ لاکھ افراد نے لائیک کیا ہے۔
اس کی ایک کاپی جسے ٹک ٹاک کے صارفین نے ٹوئٹر پر شیئر کیا ہے اسے بھی 50 لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔
ساتھ ہی یوٹیوبب اور انسٹاگرام پر اس کی مزید کاپیاں پوسٹ کی جا چکی ہیں۔
انھوں نے ایک ریکارڈنگ میں اپنے انداز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ٹک ٹاک میری ویڈیوز نہ اتارے۔’
ان ویڈیوز میں خاص بات ان کی منفرد انداز میں ادائیگی ہے جو ٹک ٹاک کے بیجنگ میں مقیم مالکان بائٹ ڈانس کی جانب سے کی جانے والی سنسرشپ کو چکما دینے کے لیے کی گئی ہے۔
فیروزہ بڑی مہارت سے پلکوں کو لمبا دکھانے کے طریقے بتانے کے دوران اپنے تنقیدی جملے ادا کرتی ہیں۔
انھوں نے ایک ریکارڈنگ میں اپنے انداز کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ٹک ٹاک میری ویڈیوز نہ اتارے۔‘
ٹک ٹاک کے چینی ورژن پر چائنیز کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں تنقید کو سنسر کیا جاتا ہے لیکن کمپنی کا کہنا ہے کہ دنیا میں دیگر ممالک میں بنائے گئے مواد کو سنسر نہیں کیا جاتا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اویغوروں کے ساتھ ’حراستی مراکز‘ میں نازیبہ مبینہ برتاؤ پر بنائی جانے والی دیگر ویڈیوز اب بھی ایپ پر موجود ہیں۔ تاہم اس حوالے سے فیروزہ کی ویڈیو کو سب سے زیادہ توجہ حاصل ہوئی ہے۔
17 برس کی فیروزہ کی ویڈیوز اسی ہفتے میں پوسٹ ہوئی ہیں جب بی بی سی پینوراما نے لیک شدہ دستاویزات کے ذریعے انکشاف کیا ہے کہ چین کے مغربی صوبے سنکیاگ میں ہزاروں مسلمان اویغوروں کے ذہنی خیالات کو کیسے زبرستی تبدیل کیا جا رہا ہے۔
چین کا دعویٰ ہے کہ ان ’حراستی مراکز‘ میں لوگ رضاکارانہ طور پر جاتے ہیں اور انھیں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے بنایا گیا ہے۔