Irfan Khan

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر سے متعلق اسلامی نظریات کونسل کی سفارشات میں موجود سقم ۔ اداریہ


مسلم لیگ “ن” کی حکومت نے اسلام آباد میں موجود ہندو کمونیٹی کو ان کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے سیکٹر H-2/9 میں چار کنال کا پلاٹ الاٹ کیا تھا ۔ جس پر حکومتی گرانٹ سے تعمیر کے آغاز کے وقت انتہاپسند مسلمانوں نے السیا ردعمل ظاہر کیا جس سے تحریک انصاف کی ڈرپوک حکومت نے  خوفزدہ ہو کر تعمیر کا کام  رکوا دیا اور فائل مشورہ کی غرض سے اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کر دی ۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل جس کے ممبران کی مدت 18 نومبر کو ختم ہو رہی ہے نے اپنی سفارشات میں ہندوؤں کمونیٹی کی ضروریات کو قابل قبول گردانتے ہوے انہیں مندر تعمیر کرنے ، شمشان گھاٹ ۔شادی بیاہ و دیگر تہواروں کو منانے کے لئے کمونیٹی سنٹر بنانے کی سفارش کی ہے ۔ مولوی کا خوف اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کے سروں پر بھی سوار ہے اس لئے ممبران نے مندر کی بجاے پوجا پاٹ کا مرکز کے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ مراد مندر کی تعمیر ہے۔لیکن ساتھ اس پابندی کی بھی سفارش کی کہ سرکاری فنڈ سے پوجا پاٹ کا مرکز قائم نہ کیا جاے۔البتہ اسلام آباد کے قریب سیدپور میں واقع مندر اور اس سے ملحق دھرم شالہ جو کئ سالوں سے بند پڑا ہے کھول دیا جاے ۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے ہر مذہبی گروہ کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق فوت شدگان کی آخری رسومات ادا کرے ۔ غیر مسلم ملک کے شہری ہیں اور ان کی فلاح و بہبود ریاست کی ذمہ داری ہے ۔حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لئے الگ رقوم مختص کرے اور وہ رقوم کمونیٹی کے حوالے کرے ۔ پاکستان کی ہندو برادری نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے ۔پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر جے پال ۔سندھ ہاری تحریک کے مرکزی رہنما نولراے میگھواڑ ۔گھوٹکی ہندو کمونیٹی کے نامور رہنما اور مشہور سماجی شخصیت تیکم داس نے اپنے تبصرہ میں کہا ہے کہ ایسے فیصلوں سے مسلمان اور ہندو کمونیٹی کے درمیان پیدا ہونے والی دوریاں ختم ہوں گی لیکن اس کے ساتھ ان رہنماؤں نے سندھ میں بند ہو جانے والے مندروں اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کی تفاصیل جاری کر کے حکومت کو ایک بار پھر اس طرف بھی متوجہ کیا ہے۔

ایک دوسرا مسلۂ شادی کے لئے ہندو بچیوں کا بالجبر تبدیلی مذہب کا بھی بیان کیا جاتا ہے ۔ آجکل بھی کراچی میں 13 سال کی آرزو مسیح کو جبری مسلمان بنا کر اس کا نکاح کر دینے کا معاملہ موضوع بحث ہے ۔حالانکہ سندھ اسمبلی سے پاس شدہ قانون موجود ہے کہ اس چھوٹی عمر میں کسی بچی یا بچے کا نکاح نہ کیا جاے ۔اسلامی نظریاتی کونسل کو ایسے معاشرتی مسائل کے قابل قبول حل کے لئے بھی مشورہ دینا چاہیے ۔ دوسرے ہم اسلامی نظریاتی کونسل کی اس سفارش سے اتفاق نہی کرتے کہ سرکاری فنڈ سے مندر تعمیر نہی ہو سکتا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس کونسی ایسی شرعی دلیل ہے جس کو بنیاد بنا کر انہوں نے سرکاری فنڈ سے مندر کی تعمیر میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے ۔ جبکہ اسلام آباد کی ہندو برادری اس قدر چھوٹی ہے کہ ان کے لئے اپنے سرمایہ سے مندر تعمیر کرنا ممکن نہی۔ معاشرہ کو زندہ رکھنے کے لئے بعض فیصلے دل پر جبر رکھ کر بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ ابو ظبہی میں ہندو برادری اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنے وسائل سے مندر تعمیر کر سکتی تھی لیکن وہاں کی حکومت کی فراخ دلی میں کوی شرعی عذر مانع نہی ہوا۔ انگلستان میں سینکڑوں مساجد مقامی حکومتوں کی امداد سے تعمیر ہویں اور ان کے روز مرہ اخراجات کا بار اٹھانے میں بھی مقامی حکومتوں کا حصہ ہے۔

اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل کا سرکاری فنڈ سے مندر کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنا بلا جواز اور انتہا پسندوں سے خوف کے نتیجہ میں ہے ۔جو درست اقدام نہی۔ 

اپنا تبصرہ بھیجیں