پینٹاگان قیادت کو خطرے کا سامنا ہے

امریکا میں نئی انٹیلی جنس معلومات میں بتایا گیا ہے کہ وزارت دفاع (پینٹاگان) کی قیادت ممکنہ خطرات کے حوالے سے محتاط اور خبردار ہو گئی ہے۔
امریکی چینل “NBC” نیٹ ورک نے جمعے کے روز 5 سینئر سیکورٹی عہدے داران کے حوالے سے بتایا کہ امریکا میں انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عسکری اور شہری ذمے داران کو گذشتہ ماہ کے اواخر میں یہ معلومات موصول ہوئیں کہ پینٹاگان کی سینئر قیادت کے لیے امریکا اور بیرون ملک خطرات موجود ہیں۔
مذکورہ عہدے داران کے مطابق یہ خطرہ ابھی تک قائم ہے جو ممکنہ طور پر رواں سال جنوری میں ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو ہلاک کیے جانے کے جواب میں انتقامی کارروائی ہو سکتی ہے۔ سلیمانی بغداد کے ہوائی اڈے کے باہر امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔
عہدے داران کے مطابق حاصل شدہ معلومات اس جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ خطرے کا ہدف ، سلیمانی کو ہلاک کرنے کے فیصلے اور اس پر عمل درامد میں شریک عسکری قیادت ہے۔
امریکی چینل نے بعض ذمے داران کے حوالے سے بتایا ہے کہ انٹیلی جنس معلومات میں اس عسکری قیادت کے ناموں کی فہرست شامل ہے جن کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
امریکی ذمے داران کے مطابق اس حوالے سے انتباہ 22 ستمبر کی شام پیش آنے والے واقعے کے بعد سامنے آیا۔ اس روز امریکی وزارت دفاع کی قیادت میں شامل ایک اعلی عہدے دار پینٹاگان سے سرکاری گاڑی میں روانہ ہوئے۔ گاڑی کو ان کا ایک سیکورٹی گاڑڈ چلا رہا تھا۔ اس دوران ایک نامعلوم گاڑی نے فوری طور پر مذکورہ عہدے دار کی گاڑی کا تعاقب شروع کر دیا۔ بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ نامعلوم گاڑی چلانے والا شخص ایرانی شہری تھا۔ اس کی گاڑی پر ورجینیا ریاست کی نمبر پلیٹ نصب تھی۔ وہ پانچ سے سات میل کے فاصلے سے پینٹاگان عہدے دار کی سرکاری گاڑی کا پیچھا کرتا رہا۔
اگرچہ بعض ذمے داران نے اس واقعے کا مقصد عہدے دار کو نشانہ بنانے کو خارج از امکان قرار دیا تاہم پینٹاگان کی جانب سے بعد ازاں انتباہ جاری کیا گیا اور اس FBI کو اس معلومات میں شریک کیا گیا۔
انٹیلی جنس معلومات میں گاڑی چلانے والے ایرانی شہری ، اس کی گاڑی اور نمبر پلیٹ کی تصاویر شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس شخص کے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کا بھی پتہ چلایا گیا ہے۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص کے ایران اور افغانستان میں دوست موجود ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی وزارت دفاع کے عہدے داران کے حوالے سے ان خطرات کا انکشاف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر رواں ہفتے بھارت اور مشرق وسطی کے کئی ملکوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ خلاف معمول ایسپر کے دورے کو نہایت خفیہ رکھا گیا اور ان کے ہمراہ موجود صحافیوں کو امریکی وزیر کی روانگی کے بعد ہی تفصیلات جاری کرنے کی اجازت دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں