نیوزی لینڈ کے عوام نے اپنی مرضی سے موت کو گلے لگانے کے قانون کی حمایت میں ووٹ دے دیا۔نیوزی لینڈ میں رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے والے شہریوں نے دو اہم معاملات پر ریفرنڈم کیلئے بھی حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔
ایک معاملہ اپنی مرضی سے موت کو گلے لگانے کے مجوزہ قانون کی حمایت یا مخالفت اور دوسرا تفریحی مقاصد کیلئے چرس کے استعمال کے مجوزہ قانون کی حمایت یا مخالفت سے متعلق تھا۔
جسنڈا آرڈرن کی لیبر پارٹی نیوزی لینڈ کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب
نیوزی لینڈ کے الیکٹورل کمیشن نے عام انتخابات کے نتائج کا تو اعلان کردیا تھا جس کے تحت نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن دوبارہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوئی ہیں تاہم ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج آج جاری کیے گئے ہیں۔
نیوزی لینڈ نے مجوزہ قانون پیش کیا تھا کہ ایسے افراد جو موت کے قریب ہوں اور ڈاکٹرز نے انہیں جواب دے دیا ہو وہ اپنی مرضی سے ڈاکٹرز کی نگرانی میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرسکیں گے تاہم قانون کے نفاذ سے قبل شہریوں سے ان کی رائے لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 65.2 فیصد لوگوں نے قانون کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 33.8 فیصد نے اس کے خلاف ووٹ دیا جبکہ ابھی بیرون ملک مقیم شہریوں کے ووٹ کی گنتی باقی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ باقی رہ جانے والے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد بھی امکان یہی ہے کہ قانون کے حق میں ووٹ زیادہ ہی ہوں گے کیوں کہ دونوں کے درمیان فرق کافی زیادہ ہے۔
مجوزہ قانون کے مطابق ایسے مریض جنہیں ڈاکٹرز نے جواب دے دیا ہو اور کہا ہو کہ ان کے پاس 6 ماہ سے کم وقت بچا ہے، وہ اپنی زندگی کے خاتمے کی درخواست دے سکیں گے۔
درخواست دینے والے شخص کی عمر 18 سال سے زائد ہونی چاہیے جبکہ اس پر دو ڈاکٹرز کی تصدیق بھی ضروری ہوگی۔
ریفرنڈم کے حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد اس قانون کا اطلاق نومبر 2021 سے ہوسکے گا۔
خیال رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مخصوص حالات میں اپنی مرضی سے موت کو گلے لگانے کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔
