ایک وقت تھا کہ سماج میں حق ہلال کی کمائی کرنے والوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور معاشرہ میں ان کی مثالیں دی جاتی تھیں ۔لیکن حالات کی ستم ظریفی اور بڑھتی ہوی مہنگائ نے انسان کو انسانیت کے اس اعلی معیار پر قائم نہی رہنے دیا ۔اس کا یہ مطلب بھی نہی کہ اب حق ہلال کی کمائ کرنے اور کھانے والے اب ناپید ہو چکے ہیں لیکن اب اتنی تبدیلی ضرور ہے کہ ان کا شمار انگلیوں پر کیا جا سکتا ہے ۔ مہنگائ اور کثرت آبادی نے انسان کو زندہ رہنے کے لئے ناجائز ذرائع آمدنی اختیار کرنے پر مجبور کیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مجبوری کرپشن اور پھر ہوس میں بدل گئ ۔جب انسان کی طبعیت قناعت کو چھوڑ کر ہوس کی طرف مائل ہو جاے تو پھر اچھا، برا ،جائز ناجائز،گناہ ثواب،کا فرق اور دین و دنیا کا خوف سب ختم ہو جاتا ہے اور انسان ہر ذرائع سے سرمایہ اکٹھا کرنے اور جائداد بنانے کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے کرپشن کی بیماری اس سرعت کے ساتھ پاکستانی معاشرہ میں سرایت کر چکی ہے کہ دنیادار تو ایک طرف دیندار،علماء کا لقب استعمال کرنے والے اور دین کے نام پر چندہ جمع کرنے والے جن کو ضرورت سے زیادہ اپنے پاس نہ رکھنے کا حکم اور مال جمع نہ کرنے کی نصیحت کی گئ ہے وہ بھی مال و اسباب جمع کرنے اور اس کو دنیا سے چھپا کر رکھنے کی فکر میں مبتلا ہیں ۔جس سے پردہ اس فقیر کی وفات کے بعد اٹھتا ہے تو تفاصیل کا علم ہونے پر دنیا حیرت میں ڈوب جاتی ہے پاکستان میں جنرل ضیا الحق نے بھی چند مذہبی شخصیات پر نوازشیں کیں تو ان کو مدرسوں کے نام پر کئ کئ ایکڑ کے پلاٹ دیے گئے ۔وہ مدرسے بعد میں بڑے بڑے دوارالعلوم میں تبدیل ہو گئے ۔وہاں ہزاروں کی تعداد میں طالب علم اپنے اپنے عقیدہ کا علم حاصل کرتے ہیں ۔ جنرل ضیاالحق کی اس نوازش نے پاکستان میں فرقہ بندی کو فروغ اور نفرتوں کو جنم دیا۔
ابھی حال ہی میں دو مشہور علماء دین کی وفات کے بعد دنیا کے علم میں آیا ہے کہ دونوں درویش دین کے نام پر اربوں کی جائیداد اور اسی قدر نقد رقوم کے مالک تھے ۔مفتی نعیم جن کا دارالعلوم، کراچی میں کئ ایکڑ کی مفت سرکاری زمین پر بنا اور پھر ان کے ذاتی نام پر منتقل ہوا ۔جنہوں نے کبھی ٹیکس نہی دیا ۔ایک عرصہ بجلی بھی مفت حاصل کرتے رہے ان کے پانچ بنک اکاؤنٹس میں 53 ارب روپے کی وراثت کا جھگڑا کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ مولانا نے یہ رقم دین کے نام پر لوگوں سے جمع کی جس کی وراثتی تقسیم اولاد کے درمیان جھگڑے اور دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کا مؤجب بنی ہوئی ہے ۔گھمکول شریف کے خلیفہ صوفی جاوید اختر کی وفات کے بعد اب عوام الناس کو پتہ چلا ہے کہ مرحوم کے بنک اکاو نٹ میں سولہ لاکھ پاؤنڈ ہیں اور تین کروڑ بائیس لاکھ پاؤنڈ کی جائیداد کے مالک ہیں ۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم سات ارب دس کروڑ ستر لاکھ بنتی ہے ۔ ان دونوں علماء دین نے کوئی محنت مزدوری نہی کی بلکہ عوام نے ان پر اعتماد کرتے ہوے غریبوں کی امداد کے لئے یہ رقوم ان کے حوالے کیں ۔ان دونوں مثالوں کی مزید تفصیل میں جائے بغیر ہم پاکستان اور برطانیہ کی حکومت کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ مذہبی ادارے چلانے والی مذہبی شخصیات سے پورا حکومتی ٹیکس وصول کیا جائے اور ان کے قائم کردہ اداروں کا سرکاری آڈٹ بھی کیا جانا ضروری ہے ۔