انسان اور حیوان میں بنیادی فرق عقل کا ہے۔ ورنہ انسان بھی ایک قسم کا جانور ہی ہے۔ جنگل کا قانون ہم سب نے سن رکھاہے۔ اور ہم سب جنگل کے قانون کا استعمال بکثرت کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسی جگہ جہاں کوئی قانون نہ ہو۔ طاقتور راج کرتاہے اور کمزور مارا جاتاہے۔ لیکن جانور بھی جانور کا خون اس وقت کرتاہے جب اسے بھوک ستاتی ہے اور جب پیٹ بھر جائے تو جنگل کا بادشاہ بھی مزے کی نیند سو جاتاہے اور چھوٹے اور کمزور جانور اس کے پاس سے گزر جاتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان ہے کہ اس کی خون کی پیاس مٹتی ہی نہیں ۔ انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے جتنا انسان نے انسان کا خون بہایا ہے اتنا کسی اور مخلوق اور بیماری نے یا طوفان نے نہیں بہایا۔
قدرت بھی انسان کو سمجھانےکی کوشش کرتی رہتی ہے۔ لیکن انسان ہے کہ سمجھتا ہی نہیں۔ آج کل بھی ساری دنیا کرونا وائرس سے نبرد آزماہے۔ مگر افسوس کہ اس مصیبت نے بھی حضرت انسان کو اکٹھا کرنے کی بجائے اور دور کر دیا ہے۔ کہیں ہم سنتے ہیں کہ ویکسین کا تجربہ کالے لوگوں پر کرنا چاہیے اور جب تجربہ کامیاب ہو جائے تو سب سے پہلے سفید لوگوں کو ویکسین دی جائے۔ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ ویکسین بن جانے کی صورت میں امیر ممالک اس کو سٹور کر سکتے ہیں۔ اور غریب پھر انتظار کرتے ہی رہ جائیں گے۔ یہ بیماریاں پہلے بھی آئیں اور پھر غائب ہو گئیں ۔لیکن جو باقی رہا وہ تھی نفر ت ۔ اور اب بھی حسد اورنفرت کے مہیب سائے گہرے سے گہرے ہو تے جا رہے ہیں۔
سب سے پہلے انسانیت ہے ۔ اور اس کے بعد باقی چیزیں آتی ہیں۔ کسی مذہب کی بنیاد نفرت پر نہیں ۔ اور کوئی مذہبی رہنما اور مصلح نفرت کی تعلیم لے کر نہیں آیا بلکہ وہ تو بغض و نفرت کو مٹانے کے لیے آئے تھے۔ وہ تو بھائی بھائی بنانے کے لیے آئے تھے۔ لیکن آج مذہب کو نفرت کو پرموٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہاہے۔ آج قومیں اور معاشرے آپس میں لڑنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اور ہر دن دنیا سے امن ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی تو سمجھائے کہ آزادی ضمیر کا مطلب کسی کو دکھ دینا اور آزار دینا نہیں ہوتا۔ ادب اور اخلاق سے دنیا عاری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ بڑوں کی عزت کرنے سے اپنی عزت بڑھتی ہے۔ اختلاف تو گھر میں بھی ہوتا ہے ۔ باپ اور بیٹا مختلف طریقہ سے سوچتے ہیں۔ لیکن وہ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ نہیں کرتے ۔ معاشرہ بھی ایک گھر کی طرح ہوتاہے۔ جس میں لوگ مختلف طریقہ سے سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ اور ہر ایک کو آزادی ہے کہ جس کو وہ اچھا سمجھے اس کو اپنا لے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے۔ جہاں ہم اپنے آپ کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بڑھ کرہم چاہتے ہیں کہ جس طرح ہم دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں وہ ویسے ہو بھی جائیں۔ آئیں ہم مل کر سوچیں کہ ہم کس طرف چل پڑے ہیں۔ جس راستہ کاہم نے انتخاب کیا ہے ۔ اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ آوانسانیت کی قدر کریں اور محبت کو عام کریں۔
