نصف صدی سے پو رے 13سا ل اوپرہو نے میں ابھی(آج ) 55قدموں کا سفر با قی ہیں۔ 63 سال ہوتے ہیں اس دشت میں ۔ بہت کچھ دیکھ لئے ۔ تھو ڑا سا پڑھ بھی لئے ۔ سو چنے کا وقت بے رو ز گا ری کے ماہ و سا ل میں ملا یا پھر قیدو بند کے. با قی کا وقت رو ٹی کما نے کے چکر میں گزر گیا ۔ تکرار پر د لی معز رت ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ کو ئی دم آتا ہے کہ دم جا ئے اور چین کی لمبی تا ن کے سو رہیں۔ سا نسو ں کی ڈور وقت مقررہ پر کٹتی ہے وقت مقررہ ? کون جا نے اس کے با رے میں ۔ شا عر نے تو کہہ دیا تھا ۔ سا ما ن سو بر س کا اور پل کی خبر نہیں ۔ اقرار کا نغمہ گا تے گا تے یہا ں تک آن پہنچے ہیں کبھی کبھی فقیر راحموں کی با ت بہت یا د آتی ہے ۔ کہتا تھا ’’ دن را ت سے اور رات دن سے بہت بھا ری ہے ز ند گی کی مشقتْ سکھ کا سا نس لینے دے تو میں کبھی ایک پل جی لوں۔ لو گ بھی کیا ہیں بس ایک پل جینا نہیں چا ہتے ‘‘
یہ کیسے ممکن ہے کہ حاذق کی یا دیں دستک دیں اور پھر حسین بن منصو ر حلا ج ؒ یا د نہ آئیں ۔ د جلہ کے مغر بی کنارے لگا ئے گئے پھا نسی گھا ٹ پر ہنس کر اپنے قدموں سے چڑ ھتے ہو ئے ، حلا ج لمحہ بھر کے لئے رُکے اور نیلے آسما ن کی طر ف دیکھ کر بو لے ’’ کو ئی انہیں سمجھا ئے کہ یہ مجھے دا ئمی ز ند گی کی طر ف لے جا رہے ہیں۔مو ت تو فکر کے با نجھ پن کو کہتے ہیں ‘‘۔ سچ یہی ہے کہ آد می ہو یا سما ج جو سو چنے سمجھنے اور فیصلہ کر نے کی صلا حیت سے عاری ہوں وہ زندہ کب ہو تا ہے ۔ با زار مْردوں سے اَٹے پڑے ہیں اور مْردوں کو زعم زند گی ہے ۔ کو ئی انہیں بتلا ئے سمجھا ئے کہ لبید نے کہا تھا ۔’’ رو ٹی کے لئے زندہ رہنا تو بس ڈھو نگ ہے آد می کا اصل یہ ہے کہ وہ ایثار سے کسی بھی لمحے پیچھے نہ ہٹے ‘‘ ماہ و سا ل کی آشنا ئی نے ہی ایک دن اوراق اْ لٹتے ہو ئے تلسی دا س سے متعا رف کر وا یا ۔ تلسی کہتے تھے ’’ اصل ز ند گی بے لگا م خوا ہشوں سے محبت کی بجا ئے حق تخلیق کی ادا ئیگی ہے جو سوا ئے اس کے کچھ نہیں کہ ان کی آوا ز بنا جا ئے جو بو لنے سے پیٹ اور رشتوں کی خا طر ڈر تے ہیں‘‘ ۔ حا فظ شیرازیؒ یا د آئے ۔ کہا ’’ مسجد اچھی جگہ ہے پر کبھی کبھی میخا نے کی رو نق کا حصہ بھی بن کر دیکھنا چا ہئیے کہ وہاں چھپا ئے کچھ نہیں چھپتا شیخ تو حر م میں بھی جھو ٹ بو لنے سے با ز نہیں آتا‘‘۔
مرشد سیدی بلھے شاہ ؒ نے کہا ۔
’’ عجیب جادو نگر ی ہے ایک دروازے سے گزر تے ہیں اور سا منے ایک اور دروازہ ۔ز ند گی یہی ہے سنبھل کر قد م قدم چلا جا ئے اور حق بند گی ادا کر دیا جا ئے ۔ حسا ب تو حق بند گی کا ہو نا ہے ‘‘ ۔ پھر سامت یا د آئے پرہمود نے اپنے مشیروں کے کہنے پر اس دانا کی پھا نسی کا حکم جا ری کیا تو ۔ سامت نے کہا ۔ پرہمود زند گی دینے کا شکر یہ ۔ اْس نے حیرا نی سے کہا ۔ تمہیں آزا د نہیں کیا جا رہا بلکہ پھا نسی پر چڑ ھا نے کا حکم دیا ہے ۔ سامت نے مسکرا تے ہو ئے کہا وقت فیصلہ کرے گا زند گی اور مو ت کا ۔ ابھی تم نہیں سمجھو گے لیکن وقت سمجھا دے گا ۔‘‘ لا ریب وقت ہی سمجھا تا ہے بندے خو د سمجھنے کی کوشش کب کر تے ہیں ۔ ہما رے چا راور جو وقت چل رہا ہے کچھ زیا دہ اچھا ہر گز نہیں ۔ بس گزر رہا ہے ۔ اہل دا نش سے سما ج خا لی ہو تا جا رہا ہے فیصلہ سا زی سے محروم کودنوں کی اْچھل کو د جا ری ہے ۔ مبنروں پر بندروں کا رقص ہے ۔ اقتدار کے ایوا نوں میں نفس پر ستوں کے غو ل ہیں ۔ کبھی کبھی انجم لا شا ری یا د آجاتے ہیں ۔ اس جوا ں مرگ شا عر نے کہا تھا ’’ بھو ک نگر کے لو گ بھی عجیب ہیں اپنا سب کچھ چٹ کر جا نے پر بھی بھو کے ہی رہتے ہیں ‘‘ ۔ چلیے پھر حا ذق سے مل لیجئے کہ اْس نے کہا تھا ’’ ان کے دہن کو بھا ئیوں کے گو شت کی لذت اور دما غ کو بر تر ی کے زعم نے کہیں کا نہیں ر کھا ۔‘‘ ’’ ان ‘‘ کا مطلب اپنی اپنی مر ضی سے نکا لتے رہئیے ۔ زند گی کا سچ یہی ہے کہ ہم ایک با نجھ عہد میں جینے پر مجبو ر ہیں ۔ کیسا عہد ہے نہ کو ئی سامت ہے ۔ نہ منصو ر ، سر مد ہے نہ بلھے شا ہ ۔ بس بو نوں اور بوزنوں کا ہجو م ہے ہر سو دندتا ہوا .
