پاکستانی آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر 7 جولائی 2025 کو اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے گریجویٹس سے خطاب کر تے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کا ’خالصتاً دوطرفہ فوجی تنازعے میں دیگر ریاستوں کو شریک قرار دینا کیمپ سیاست کا ناقص ہتھکنڈہ ہے
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے انڈیا کا ’خالصتاً دوطرفہ فوجی تنازعے میں دیگر ریاستوں کو شریک قرار دینا کیمپ سیاست کا ناقص ہتھکنڈہ ہے۔‘
پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پیر کو انڈین فوج کے حالیہ دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ اسلام آباد کو مئی 2025 میں ہونے والی جنگ کے دوران چین کی طرف سے ’لائیو ان پٹس‘ کی حمایت حاصل تھی، انہوں نے ان الزامات کو ’حقائق کے منافی‘ اور میدان جنگ میں ناکامیوں سے منہ موڑنے کی ’ناقص کوشش‘ قرار دیا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے پیر کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) اسلام آباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے نیشنل سکیورٹی اور وار کورس کے گریجویٹنگ افسران سے خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے ’خالصتاً دوطرفہ فوجی تنازعے میں دیگر ریاستوں کو شریک قرار دینا کیمپ سیاست کا ناقص ہتھکنڈہ ہے، جس کا مقصد صرف اس تاثر کو قائم رکھنا ہے کہ انڈیا ایک بڑے جیو پولیٹیکل مقابلے کا فائدہ اٹھانے والا ’نیٹ سکیورٹی پرووائیڈر‘ ہے، جب کہ خطے کے ممالک اس کی انتہا پسند ہندوتوا نظریے اور بالادستی پر مبنی سوچ سے بیزار ہو چکے ہیں۔‘
حال ہی میں انڈین فوج کے ڈپٹی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے کہا تھا کہ چین نے مئی میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے دوران اسلام آباد کو انڈیا کے اہم ٹھکانوں کے بارے میں ’لائیو اِن پُٹس‘ (لمحہ بہ لمحہ معلومات) فراہم کیں۔
لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے مزید کہا تھا کہ اس جھڑپ کے دوران انڈیا کو دو دشمنوں کا سامنا تھا، جن میں پاکستان ’سامنے‘ تھا، جب کہ چین نے اسے ’ہر ممکن مدد‘ فراہم کی۔
انڈیا سے جنگ کے دوران پاکستان نے چینی ساختہ جنگی طیارے جے ایف 17، جے10 اور پی ایل 15 نامی میزائل استعمال کیے جو لانگ رینج، ایکٹیو ریڈار سیکر اور اینٹی جمنگ صلاحیتوں سے آراستہ ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سطح پر تیار فتح ون میزائل استعمال کیے گئے۔
انڈیا نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ پاکستان نے جو ڈرون داغے گئے وہ ترک ساختہ ہیں اور اسلام آباد کو ترکی کی بھی حمایت حاصل تھی۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں نشاندہی کی کہ انڈیا کی ’آپریشن سندور‘ کے دوران اپنے اعلان کردہ عسکری مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی اور اس کے بعد اس کمی کو پیچیدہ دلائل سے جواز دینے کی کوشش، اس کی آپریشنل تیاری اور سٹریٹجک دور اندیشی کی کمی کو ظاہر کرتی ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے کامیاب ’آپریشن بنیان مرصوص‘ میں بیرونی مدد کے الزامات ’غیر ذمہ دارانہ اور حقائق کے منافی ہیں اور یہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انڈیا دہائیوں پر محیط پاکستان کی سٹریٹجک بصیرت، مقامی صلاحیتوں اور ادارہ جاتی استقامت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔‘
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ ’انڈیا کے تنگ نظر مفاداتی جھکاؤ پر مبنی سٹریٹجک رویے کے برعکس، پاکستان نے باوقار سفارت کاری، باہمی احترام اور امن کی بنیاد پر پائیدار شراکت داری قائم کی ہے اور خود کو خطے میں ایک استحکام بخش قوت کے طور پر منوایا ہے۔‘
پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے کہا کہ ملک کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی مہم جوئی یا کوششوں یا علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کا اضطراری طور پر فوری اور پرعزم جواب دیا جائے گا، بغیر کسی رکاوٹ یا روک ٹوک کے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’ہمارے آبادی کے مراکز، فوجی اڈوں، معاشی مراکز اور بندرگاہوں کو نشانہ بنانے کی کسی بھی کوشش پر انتہائی تکلیف دہ اور باہمی ردعمل سے زیادہ جواب دیا جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں کے سنگین نتائج کی ذمہ داری اُس جارح پر عائد ہو گی جو ایک خودمختار جوہری ریاست کے خلاف اپنے سٹریٹجک اندھے پن کے باعث خطرناک اقدام کرے گا۔‘
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا کہ جنگیں نہ تو میڈیا کی بڑھک بازی، درآمد شدہ جدید ہتھیاروں اور نہ ہی سیاسی نعروں سے جیتی جاتی ہیں، بلکہ ایمان، پیشہ ورانہ مہارت، واضح آپریشنل اقدامات، ادارہ جاتی مضبوطی اور قومی عزم سے جیتی جاتی ہیں۔
اپنے خطاب میں جنگ کے بدلتے ہوئے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پیچیدہ سٹریٹجک چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ذہنی تیاری، آپریشنل وضاحت اور ادارہ جاتی پیشہ ورانہ مہارت انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
انہوں نے این ڈی یو جیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کردار کو سراہا جو سول ملٹری ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہیں اور مستقبل کی ایسی قیادت تیار کرتے ہیں جو ہائبرڈ، روایتی اور غیر روایتی خطرات کا پُر اعتماد انداز میں مقابلہ کر سکے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اپنے خطاب کے اختتام پر پاکستان فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت، بلند حوصلے اور تیاری پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔