کالم نگار:
(فضل الرحمن کھوکھر)
جب دنیا کی نظریں یوکرین، روس یا چین و امریکہ کے تنازعات پر مرکوز تھیں، مشرق وسطیٰ میں ایک اور بھڑکتی چنگاری نے عالمی سیاست کو لرزا کر رکھ دیا — ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جنگ آخر کیوں؟
تاریخ کی کھڑکی سے جھانکتے حقائق ایران اور یہود کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے، لیکن جدید ریاست اسرائیل کے قیام (1948) کے بعد ایران نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ خاص طور پر 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد، ایران نے فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کو اپنی ریاستی پالیسی بنا لیا۔ تب سے لے کر آج تک ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کو وجودی خطرہ سمجھتے آئے ہیں۔
نظریاتی محاذ آرائی
ایران کی قیادت خود کو “مظلوم امتِ مسلمہ” کا محافظ گردانتی ہے، جبکہ اسرائیل کو ایک “غاصب اور ناجائز ریاست” تصور کیا جاتا ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ تنظیمیں حماس، حزب اللہ، اسلامی جہاد — اسرائیل کے خلاف محاذ پر ہیں، اور اسرائیل انہیں دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔
شام، لبنان اور پراکسی جنگیں لبنان میں حزب اللہ کی موجودگی اسرائیل کے لیے مستقل خطرہ ہے۔ شام میں ایرانی ملیشیاؤں کی موجودگی اور وہاں اسرائیلی فضائی حملے دونوں ممالک کے درمیان جاری پراکسی جنگ کی مثال ہیں۔
ایران کا ایٹمی پروگرام: خطرہ یا حق؟
اسرائیل کو ایران کے جوہری عزائم سے گہرا خطرہ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایران کا ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا مشرق وسطیٰ میں توازنِ طاقت کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا۔ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیوکلئیر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، مگر اسرائیل اور مغربی طاقتیں اس مؤقف کو تسلیم نہیں کرتیں۔
حالیہ جنگی ماحول کی بنیادی وجوہات حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں ایران کی حمایت کھل کر سامنے آئی ایران نے پہلی بار براہِ راست اسرائیلی سرزمین پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ اسرائیل نے شام میں ایرانی قونصل خانے اور قدس فورس کے افسران کو نشانہ بنایا۔
یہ تمام واقعات نہ صرف کشیدگی کو عروج پر لے گئے بلکہ سفارتی روایات کو بھی روند ڈالا۔
امریکہ اور مغربی طاقتوں کا کردار
امریکہ ہمیشہ اسرائیل کا دفاعی اتحادی رہا ہے۔ ایران کی معیشت پر پابندیاں، پاسداران انقلاب پر دہشت گردی کے الزامات، اور مغربی میڈیا میں ایران کا منفی کردار، یہ سب چیزیں اس جنگ کو صرف دو ملکوں تک محدود نہیں رہنے دیتیں۔
عالمی نتائج
یہ جنگ نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے لیے مہنگائی، تیل کی قیمتوں، سلامتی اور معیشت کے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
یہ جنگ دراصل صرف راکٹوں کی نہیں، بلکہ نظریات، شناخت، اور طاقت کی کشمکش ہے۔
خلیجی ممالک کا رویہ: بیچ کی لکیر پر چلنے کی کوشش
ایران اور اسرائیل کی کشیدگی کے بیچ میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ریاستیں ایک نازک پوزیشن میں ہیں۔ ایک جانب ان کے اسرائیل کے ساتھ حالیہ برسوں میں سفارتی اور تجارتی تعلقات بحال ہوئے، تو دوسری طرف ایران ان کا ہمسایہ ہے جس سے نہ صرف جغرافیائی بلکہ مذہبی اور مسلکی تناؤ بھی موجود ہے۔
ابراہام معاہدے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ایران اسرائیل جنگ کی موجودہ صورتحال میں خلیجی ممالک شدید دباؤ میں ہیں کہ کس طرف کھڑے ہوں۔
ترکی، چین اور روس: غیر متوقع اتحادی
ترکی نے اگرچہ اسرائیل پر تنقید کی ہے، مگر وہ بھی ایران کی بالادستی سے محتاط ہے۔
چین اور روس، دونوں بڑی طاقتیں، مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کو محفوظ کرنے کے لیے امریکہ و اسرائیل مخالف بیانیے کی حمایت کرتے ہیں، مگر کھل کر کسی ایک فریق کی مکمل حمایت سے گریزاں ہیں۔
چین ایران کو BRI (Belt and Road Initiative) میں ایک کلیدی ساتھی سمجھتا ہے، جبکہ روس کے ایران کے ساتھ دفاعی و تیل کے معاہدے ہیں۔ یہ دونوں ممالک اس کشیدگی کو اپنے عالمی مفادات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
عالمی ردِ عمل: دوہرا معیار؟
جب یوکرین پر روس حملہ کرتا ہے، تو مغرب انسانی حقوق کا نعرہ لگاتا ہے۔ لیکن جب فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی کارروائیاں ہوتی ہیں، تو ردِعمل قدرے مختلف ہوتا ہے۔
ایران اسی تضاد کو بنیاد بنا کر خود کو مظلوموں کی حمایت میں کھڑا دکھاتا ہے۔
اقوام متحدہ اب تک صرف بیانات اور اپیلوں تک محدود ہے، جب کہ یورپی یونین اندرونی طور پر منقسم ہے کہ کس حد تک اسرائیل کی حمایت کی جائے اور کس حد تک ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کی جائیں۔
ممکنہ منظرنامے: دنیا کس جانب جا رہی ہے؟
اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو:
– تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی
– عالمی معیشت ایک اور بحران کی زد میں آ سکتی ہے
– عرب اسٹریٹ میں غم و غصہ مزید بڑھے گا، جو حکومتوں پر دباؤ ڈالے گا
– عالمی طاقتوں کی نیابتی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی
جبکہ اگر سفارتی کوششیں کامیاب ہو جائیں تو یہ تنازع ایک سیاسی حل کی جانب جا سکتا ہے، جس کی بہت کم امید نظر آ رہی ہے۔
آخری نوٹ: امن کا موقع؟
بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ میں امن کا ہر موقع نظریاتی ضد، علاقائی انا، اور عالمی طاقتوں کی خود غرضی کی نذر ہوتا آیا ہے۔ اگر واقعی دنیا کو اس جنگ سے بچانا ہے تو ایران اور اسرائیل دونوں کو کسی تیسرے غیرجانبدار ثالث کے ذریعے ڈائیلاگ پر راضی کرنا ہوگا — اور یہ کام صرف عالمی ضمیر کے بیدار ہونے سے ممکن ہے، طاقت سے نہیں۔