ایرانی صدر نے تعاون معطل کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے بل کی منظوری دے دی ہے
امریکہ نے کہا ہے کہ ایران کے لیے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنے تعاون کو معطل کرنے کا فیصلہ کرنا ناقابل قبول ہے۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کے لیے گزشتہ ہفتے پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے باقاعدہ پریس بریفنگ میں کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور تہران کو بغیر کسی تاخیر کے ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے بدھ کے روز کہا کہ ایران کی جانب سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کی معطلی یقینی طور پر تشویشناک ہے۔ ڈوجارک نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے سرکاری فیصلہ دیکھا ہے جو یقیناً تشویشناک ہے۔ سیکرٹری جنرل ایران سے IAEA کے ساتھ تعاون کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ دوجارک کا یہ تبصرہ صدر مسعود پیزشکیان کی جانب سے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے بل کی منظوری کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔
تہران اور اقوام متحدہ کی ایجنسی کے درمیان 13 جون کو غیر معمولی اسرائیلی حملے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی۔ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا اور ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا اور واشنگٹن نے ایران میں تین بڑی جوہری تنصیبات پر بمباری کی تھی۔
ایرانی اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے "فیصلہ کن اقدام” کرے۔ ساعر نے جرمنی، فرانس اور برطانیہ پر زور دیا کہ وہ ایران پر تمام پابندیاں دوبارہ لگائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو اب فیصلہ کن انداز میں کام کرنا چاہیے اور ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے لیے اپنے اختیار میں تمام ذرائع استعمال کرنا چاہیے۔