دنیا کی موجودہ ٹیکنالوجی کو اگر کسی ایک شخصیت میں مجسم دیکھا جا سکتا ہے، تو وہ ایلن مسک ہیں۔ ایک ایسا نابغۂ روزگار انسان، جس نے اسپیس ایکس کے ذریعے خلاء کو تجارتی میدان میں داخل کیا، ٹیسلا کے ذریعے ماحول دوست ٹرانسپورٹ کو قابلِ عمل بنایا، اور اب سابقہ ٹوئٹر یعنی X کو آزادیٔ اظہار کا گڑھ بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مگر اب ایلن مسک نے ایک ایسا اشارہ دیا ہے جو نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کی سیاست میں ہلچل مچا سکتا ہے — اپنی سیاسی جماعت کے قیام کا عندیہ۔
یہ اشارہ معمولی نہیں۔ حالیہ دنوں میں ایلن مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کئی ایسی پوسٹس کی ہیں جن میں امریکی سیاست کے "بوسیدہ اور تقسیم شدہ نظام” پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں جماعتیں عوامی مسائل سے کٹی ہوئی ہیں، اور ان کی پالیسیاں وقت کی ضرورتوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو اب ایک "تھرڈ فورس” کی ضرورت ہے — ایک ایسی جماعت جو نہ انتہا پسند ہو نہ بےعمل، جو جدید دنیا کے چیلنجز کو ٹیکنالوجی، سچائی، اور آزادیِ رائے کے اصولوں کے تحت حل کرے۔
ایلن مسک کی یہ سوچ محض خیال آرائی تک محدود نہیں۔ رپورٹس کے مطابق ان کی ٹیم نے چند سیاسی تھنک ٹینکس، قانونی ماہرین، اور سابقہ حکومتی مشیروں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ ساتھ ہی، "ایکس پارٹی” (X Party) اور "ٹیکنوکریٹ نیشن موومنٹ” جیسے الفاظ ان کی پوسٹس میں نمایاں ہو چکے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے ابھی تک باضابطہ طور پر کسی جماعت کا اعلان نہیں کیا، مگر تمام اشارات اس بات کی طرف جاتے ہیں کہ وہ اس سمت میں عملی قدم اٹھانے کے قریب ہیں۔
یہ سوال کہ کیا ایلن مسک کو سیاست میں قدم رکھنا چاہیے، امریکی عوام میں مختلف آرا کو جنم دے چکا ہے۔ ایک طرف وہ افراد ہیں جو ان کی جدید سوچ، غیرروایتی انداز، اور کھلے اظہار رائے کو سراہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسک ایک ایسا لیڈر بن سکتے ہیں جو ٹیکنالوجی، معیشت، اور سماجی مساوات کو ایک نئے زاویے سے دیکھے گا۔ دوسری طرف، ناقدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک ارب پتی کا سیاست میں آنا جمہوری توازن کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں پیسے اور اثر و رسوخ کا غلبہ جمہوریت کی روح کے منافی ہے، اور ایلن مسک کی غیرمتوازن سوشل میڈیا سرگرمیاں اس خطرے کو مزید بڑھاتی ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکی سیاست میں کسی "تھرڈ پارٹی” کا کامیاب ہونا آسان نہیں۔ تاہم، موجودہ پولرائزیشن اور عوامی بےزاری نے ایک خلا ضرور پیدا کیا ہے۔ حالیہ گیلپ سروے کے مطابق 58 فیصد امریکی ووٹرز ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کے حق میں ہیں۔ اگر ایلن مسک اس موقع کو درست حکمت عملی اور اعتدال پسند پیغام کے ساتھ استعمال کریں، تو وہ ایک مضبوط سیاسی طاقت بن سکتے ہیں۔
یہ سیاسی مہم صرف امریکہ تک محدود نہیں رہے گی۔ چونکہ مسک کے منصوبے عالمی نوعیت رکھتے ہیں — اسپیس ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، مصنوعی ذہانت، توانائی اور حتیٰ کہ جنگی رابطہ نظام (Starlink) — اس لیے ان کی سیاسی سرگرمیوں کو بین الاقوامی سطح پر بھی خاصی توجہ حاصل ہوگی۔
آخر میں، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ایلن مسک کی ممکنہ سیاسی جماعت کس حد تک کامیاب ہوگی۔ مگر ایک بات طے ہے: اگر وہ واقعی سیاست میں قدم رکھتے ہیں، تو یہ محض ایک اور پارٹی کا اضافہ نہیں ہوگا، بلکہ سیاست کے انداز، لہجے، اور ایجنڈے میں ایک مکمل انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔