عرفان احمد خان
جرمنی کی بیشتر یونیورسٹیاں دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہیں ۔اس کے بلمقابل جرمنی میں رائج سکول سسٹم اکثر ملک کے اندر موضوع بحث بنا رہتا ہے ۔ حال ہی میں ایک انٹرنیشنل سروے رپورٹ کی اشاعت کے بعد سیکنڈری سکول سسٹم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ Programme for International student Assessment (PISA)
جو ہر تین سال کے بعد دنیا کے اہم ممالک کے سکولوں کا جائزہ لے کر درجہ بندی کا فیصلہ کرتا ہے ۔ اس نے 85 ممالک کے 6300 پندرہ سال سے کم عمر طالب علم بچوں کا سائنس ، Mathematics , Reading کا ٹیسٹ لیا تو ان میں مغربی ممالک کے سکول بہت پیچھے رہ گئے جبکہ پہلے پانچ ممالک میں سنگاپور ، چین، جاپان، تائیوان اور جنوبی کوریا شامل ہیں ۔ جرمنی 24 ویں
نمبر پر آیا ۔ چودویں نمبر پر انے کی وجوہات تلاش کرنے کے لئے اتوار کے روز ویلٹ ٹی وی نے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا تھا جس کی نظامت ویلٹ ٹی وی کے Editor in Chief خود کر رہے تھے ۔ اس مذاکرہ میں علاوہ دیگر ماہرین کے جرمنی کی وزیر تعلیم Mrs Karin Prien بھی موجود تھیں ۔ وہ قدامت پسند سیاسی پارٹی CDU سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انہوں نے اس پسماندگی کی
وجہ جرمن سکولوں میں امیگرنٹ فیملیوں کے بچوں کی بہتات بتائی اور حل یہ تجویز کیا کہ کسی بھی کلاس میں ایمگرنٹ بچوں کی
تعداد تیس ، چالیس فیصد فکس کر دی جاے ۔ ان بچوں کی جرمن زبان کمزور ہوتی ہے اور ان کو مضمون سمجھنے میں دقت کا سامنا رہتا ہے ۔ مقام شکر ہے کہ مذاکرہ میں شامل کسی فرد نےبھی ان کی اس تجویز سے اتفاق نہی کیا بلکہ ان کے اس بیان نے جرمنی میں بحث کے نئے دروازے کھول دیے ہیں ۔ وزیر تعلیم نے اپنے اس موقف کی تائید میں ڈنمارک کی مثال دی تھی جبکہ ڈنمارک میں رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہاں سکولوں میں کبھی بھی غیر ملکی پس منظر رکھنے والے بچوں کے ساتھ تفریق نہی برتی گئی اور نہ ہی کلاس روم کی بنیاد میں کسی کوٹہ سسٹم کا دخل ہے ۔ فیڈرل انٹیگریشن کمشنر Natalie Pawlik , صدر جرمن ٹیچر ایسوسی ایشن
Stefan Duell
اور حتکہ غیر ملکیوں کی مخالف پارٹی AFD نے بھی اس تفریق کی مخالفت کی ہے ۔ جرمن ٹیچر میگزین News4teacher
میں وزیر تعلیم کے ان ارادوں کے خلاف ارٹیکل شائع ہوا ہے ۔ ملک کے قانون دانوں نے اس تفریق کو جرمن آئین سے متصادم قرار دیا ہے۔ غرض ہرطرف سے وزیر تعلیم کے اس بیان کی مزمت کی جا رہی ہے ۔
ایک طرف جرمن حکومت سالانہ دو لاکھ ورکر کی کمی پورا کرنے کے لئے دنیا بھر سے نوجوان ماہرین کو جرمنی انے کی ترغیب دے رہی ہے اور دوسری طرف ان کے بچوں کے ساتھ تفریق کے سلوک کا عندیہ بھی دے رہی ہے ۔ البتہ جرمن وزیر کی اس بات میں وزن ہے کہ ایمگرنٹ فیملیز اپنے بچوں کے ساتھ مادری زبان بولتے ہیں اس لئے بچہ سکول میں داخل ہونے کےبعد جرمن زبان سیکھنا شروع کرتا ہے جس سے اس کی تعلیمی قابلیت متاثر ہوتی ہے ۔ درست بات یہ ہے کہ فیملی کے پہلے بچے تک تو یہ بات مانی جا سکتی ہے لیکن فیملی میں بعد میں شامل ہونے والے بچے اپنے بڑے بہن بھائیوں سے جرمن زبان میں ہی گفتگو کا آغاز کرتے دیکھے گئے ہیں ۔ بعض معتبر علمی شخصیات نے اسکا حل یہ تجویز کیا ہے کہ چار سال کی عمر سے بچوں کو جرمن پڑھانے کا انتظام سرکاری طور پر کیا جاے تا جب بچے 6 سال کی عمر میں سکول جانے لگیں تو انہیں جرمن زبان کا مسلہ نہ ہو ۔
جرمنی میں بچوں کی شرح پیدائش میں ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس کمی کو ایمگرنٹ فیملیز پورا کر رہی ہیں ۔ مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوے صوبائی محکمہ تعلیم کو ایسی سکیمیں شروع کرنی چاہیں جو تعلیمی نظام میں آج محسوس کیے جانے والے خلاء کو پورا کر سکیں ۔ ایمگرنٹس بچوں میں تفریق کی بنیاد مسائل کا حل نہی ہے ۔