شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ٹوم باراک عنقریب کرد اکثریتی "سیرین ڈیموکریٹک فورسز” (ایس ڈی ایف) کے کمانڈر مظلوم عبدی سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات شام اور عراق میں داعش کے خلاف امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد اور "ایس ڈی ایف” کے مابین جاری تعاون کے تناظر میں ہو رہی ہے۔
بات چیت کن معاملات پر ہو گی اور ملاقات کب اور کہاں ہو گی؟
اگرچہ "ایس ڈی ایف” نے باراک اور عبدی کے درمیان متوقع ملاقات کے وقت اور تاریخ پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن "ایس ڈی ایف” سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک ذریعے نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا ہے کہ یہ ملاقات آئندہ چند دن یا ہفتے کے اندر متوقع ہے۔
اسی ذریعے کے مطابق باراک اور عبدی کے درمیان ملاقات میں دس مارچ کو عبدي اور شامی حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات چیت ہو گی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکی ایلچی فرانسیسی حمایت کے ساتھ، فریقین کو اس معاہدے کی تجدید کرنے یا اس کی جگہ کوئی نیا معاہدہ تجویز کرنے پر آمادہ کریں۔
اس ملاقات میں دیگر اہم معاملات بھی زیر بحث آئیں گے، جن میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں بین الاقوامی اتحاد اور ایس ڈی ایف کے درمیان تعاون جاری رکھنا، اور ترکی سے متعلق معاملات شامل ہوں گے۔ ایس ڈی ایف سے وابستہ اس ذریعے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ امریکی ایلچی نے حال ہی میں مظلوم عبدی سے ایک ٹیلیفونک گفتگو کے دوران شام میں داعش کی تازہ سرگرمیوں کے بعد سیکیورٹی کی بگڑتی صورت حال پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔
ابھی تک ملاقات کے مقام کا با ضابطہ اعلان نہیں کیا گیا، تاہم امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ ملاقات عراقی کردستان کے دار الحکومت اربیل میں ہو سکتی ہے، جہاں عبدی اس سے پہلے بھی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ رواں سال اپریل کے آخر میں ان کی فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو سے ملاقات ہوئی تھی۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکی ایلچی شمال و مشرقی شام کی خود مختار انتظامیہ کے زیرکنٹرول علاقوں میں قائم بین الاقوامی اتحاد کی افواج سے بھی ملاقات کریں گے۔ یہ علاقہ مکمل طور پر ایس ڈی ایف کے کنٹرول میں ہے اور اس میں صوبہ حلب اور دیر الزور کے کچھ حصے، اور الحسکہ اور الرقہ کے مکمل علاقے شامل ہیں … سوائے ان دو قصبوں کے جن پر اکتوبر 2019 سے ترکی قابض ہے۔
الشرع کے ساتھ معاہدہ
یہ بھی یاد رہے کہ مظلوم عبدی نے 10 مارچ کو شامی صدر احمد الشرع کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا، جس کی پہلی شق کے مطابق، تمام شامی شہریوں کو ان کی مذہبی یا نسلی وابستگی سے قطع نظر، سیاسی عمل اور ریاستی اداروں میں اہلیت کی بنیاد پر شرکت اور نمائندگی کا حق حاصل ہو گا۔
دوسری شق میں یہ تسلیم کیا گیا کہ کرد معاشرہ شام کا ایک بنیادی حصہ ہے، اور شامی ریاست اسے مکمل شہری حقوق اور آئینی تحفظ دے گی۔
تیسری اور سب سے نمایاں شق میں شام بھر میں مکمل جنگ بندی کا اعلان شامل ہے، جب کہ چوتھی شق کے مطابق، شمال مشرقی شام کے تمام شہری و عسکری ادارے، جن میں سرحدی گزرگاہیں، ہوائی اڈے اور تیل و گیس کے کنوئیں شامل ہیں، شامی ریاستی نظم میں شامل کیے جائیں گے۔
معاہدے کی دیگر دفعات میں تمام جبری طور پر بے دخل کیے گئے شامیوں کی واپسی اور ان کی ریاستی تحفظ کی ضمانت شامل ہے، نیز سابق حکومت کے عناصر کے خلاف کارروائی، ملک کی تقسیم کی کوششوں اور نفرت انگیز و فتنہ انگیز خطابات کو مسترد کرنے کی شقیں بھی اس معاہدے کا حصہ ہیں۔ اس معاہدے کو نافذ کرنے کے لیے سال کے اختتام سے پہلے عمل درآمد کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی۔