اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف اپوزیشن میں ہلچل میں اضافہ نظر آنے لگا ہے۔ سابق وزیراعظم نیفتالی بینیٹ نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران موجودی سیاسی صورتحال اور اسرائیل کو درپیش چیلنجوں کے پس منظر میں کہا ہے نیتن یاہو کو لازماً اقتدار چھوڑ کر گھر جانا ہوگا۔
تاہم انہوں نے اس بات کا جواب دینے سے انکار کیا کہ وہ ملک کے طویل تر مدت کے لیے وزیر اعظم رہنے والے لیڈر کو اگلے الیکشن میں چیلنج کریں گے۔ نیفتالی بینیٹ کا یہ انٹرویو چینل 12 نے ہفتہ کی رات نشر کیا ہے۔
وہ کہہ رہے تھے کہ نیتن یاہو 20 سال اقتدار میں رہ چکے ہیں اور یہ ملک کے لیے صحت مندانہ رجحان نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم نے اسرائیل میں حالیہ برسوں میں عوامی سطح پر بڑھنے والی تقسیم اور تصادم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ‘نیتن یاہو کو لازماً اس کی بھی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ یہ سب کچھ ان کے زیر قیادت ملک میں ہوا ہے۔’
خیال رہے نیتن یاہو عوام میں گہرے اثرات رکھتے ہیں۔ مگر ان کے مخالف سیاسی جماعتیں اور قیادت بھی کمزور نہیں ہیں اور وہ اکتوبر سے جاری جنگ کے دوران بار ہا اس امر کا مطالبہ کر چکی ہیں کہ نیتن یاہو کو ملکی اقتدار پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
اپوزیشن کے اسی مطالبے کو سابق وزیر اعظم نیفتالی بینیٹ نے اپنے انٹرویو میں زور دے کر بیان کیا ہے۔
تاہم پچھلے اچانک ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو کٹر یہودی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے اور ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئے۔
نیفتالی بینیٹ دائیں بازو کے سیاسی رہنما ہیں۔ وہ اس سے پہلے فوج میں بھی رہ چکے ہیں اور ماضی میں نیتن یاہو کے خلاف اپوزیشن کے ایک اتحاد کا بھی حصہ رہے۔
نیفتالی بینیٹ کچھ عرصہ سے سیاست سے ذرا دور چلے گئے تھے۔ تاہم ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دوبارہ سے سیاسی زندگی میں متحرک ہونا چاہ رہے ہیں۔ اسی طرح عوامی جائزوں میں یہ بھی بات کہی جا رہی ہے کہ اگر وہ میدان میں دوبارہ اترتے ہیں تو نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے میں عوامی حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔
اگلے عام انتخابات کی 2026 سے پہلے کوئی امید نہیں ہے کیونکہ رواں ماہ ہی پارلیمان کے قبل از وقت ختم ہونے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کی قرارداد کثرت رائے سے ناکام ہو گئی تھی اور اب اپوزیشن کو اسی طرح کی کوئی قرارداد لانے کے لیے کم از کم 6 ماہ کا انتظار کرنا ہوگا۔
نیفتالی بینیٹ نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی بنیاد انہوں نے ہی اپنے دور حکومت میں رکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے کرنے کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا اور بہت اچھا فیصلہ تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ان کی حکومت نہ بنتی تو یہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں آج اسرائیل نہ ہوتا۔انہوں نے مزید کہا کہ بلاشبہ غزہ میں 2023 سے جاری جنگ میں اسرائیلی فوج کا کردار غیر متوقع اور مثالی رہا ہے۔ تاہم سیاسی شعبے میں نیتن یاہو بہتر انتظام ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا سیاسی منظرنامہ ایک تباہی کا آئینہ دار ہے۔انہوں نے نیتن یاہو کی حکومتی نااہلیت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اسرائیل کے غزہ میں قید لوگوں کی رہائی کے لیے ایک جامع اور بہتر معاہدے کی کوشش کرنی چاہیے اور حماس کے خاتمے کا مشن اگلی حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔