سوات میں ایک پورا خاندان سیلاب کی نذر ہو گیا، مگر حکومت ایک بار پھر محض تماشائی بنی رہی۔ یہ کوئی قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک مکمل حکومتی ناکامی ہے۔
یہ خاندان سوات کی بھرپور پرفضا ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے آے تھے مگر
کہتے ہیں قدرت کے آگے انسان بے بس ہے،
مگر جب انسان خود اپنی نااہلی سے قدرت کو موت کا بہانہ بنا دے،
تو یہ صرف حادثہ نہیں، ایک اجتماعی جرم بن جاتا ہے
آج ایک پورا خاندان زندگی کی بازی ہار گیا، اور حکومتی نمائندے صرف بیانات کی سیاست میں مصروف ہیں۔ کیا ان لاشوں پر صرف سیاست ہوگی؟ کیا عوام کی جان کی کوئی قیمت نہیں؟
سیلاب سے ہر سال تباہی آتی ہے، لیکن حکومت ہر سال اسی تباہی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ منصوبہ بندی ، ایمرجنسی سروسز ناکارہ، اور وسائل صرف وزیروں کے پروٹوکول پر خرچ ہو رہے ہیں۔
سوات کا حالیہ سانحہ ہمیں جھنجھوڑ کر یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسے نظام میں سانس لے رہے ہیں جہاں انسانی جانوں کی قیمت کاغذی رپورٹس، تاخیر سے پہنچنے والے اداروں، اور غیر تربیت یافتہ عملے سے کم تر ہے۔
ملک پاکستان میں دھرنے پارٹی اور روڈ بلاک پارٹی کی سب بڑی نااہلی بھی سامنے آئی ہے
جس نے تقریبا 12 سالوں کی حکومت میں ابھی تک وہاں پر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جہاں پر انسانی جانوں کا ضیا نہ ہو ان کو اپنے کاموں سے فرصت ملے تو کچھ عوام کا بھی سوچیں اور کے پی کے کی حکومت صرف نام کی حکومت ہے یہی سچ ہے یہی حقیقت
دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی واضح وارننگ کے باوجود ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122، پولیس اور متعلقہ ادارے یہ بنیادی کام بھی نہ کر سکے کہ دور سے آئے ہوئے ناواقف سیاحوں کو پیشگی اطلاع دے کر دریائے سوات جیسے خطرناک مقامات سے دور رکھا جاتا۔
یہ غفلت نہیں، سنگین کوتاہی ہے۔
وہ بے بس لاشیں، وہ آنسوؤں سے تر چہرے، وہ وائرل تصویریں ہمیں بار بار ایک ہی بات کہہ رہی ہیں:
یہ موتیں روکی جا سکتی تھیں۔
اگر بروقت اطلاع ہوتی،
اگر خطرے کے مقام پر وارننگ بورڈز اور اہلکار موجود ہوتے،
اگر ریسکیو ٹیموں نے پہلے ہی پوزیشن سنبھال لی ہوتی،
تو شاید آج ہم یہ سطریں دکھ کے بجائے شکرانے کے جذبات کے ساتھ لکھتے۔
مگر افسوس، ہم نے پھر وہی کیا جو ہم ہمیشہ کرتے ہیں — حادثے کے بعد افسوس، مذمت، اور خاموشی۔
ہمیں سیکھنا ہوگا کہ غفلت بھی جرم ہے۔
ہمیں اٹھنا ہوگا، سوال کرنا ہوگا، اور ہر ذمہ دار کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔
تاکہ آئندہ کوئی ماں اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے فریاد نہ کرے،
بیاور کوئی بچہ ملبے تلے مدد کا انتظار نہ کرے۔
یہ صرف سوات کا سانحہ نہیں،
یہ ہمارے نظام کی، ہماری ریاست کی اور ہم سب کی اجتماعی ناکامی ہے۔