معروف اطالوی برانڈ پراڈا کی جانب سے ہندوستانی روایتی کولہاپوری چپل جیسے ڈیزائن پیش کرنے پر پیدا ہونے والے تنازع نے ایک زوال پذیر ہنر مندی کو نئی عالمی توجہ دلا دی ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستانی کاریگر اور کاروباری افراد کولہاپوری چپل کی فروخت اور شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔ہندوستانی جوتے فروش اور دستکار ایک بار پھر کولہاپوری چپل کی مقبولیت بڑھانے کیلئے قوم پرستی سے جڑی جذباتی لہر سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ موقع انہیں اُس وقت ملا جب معروف اطالوی فیشن برانڈ پراڈا نے میلانو فیشن شو میں ایسی سینڈل پیش کیں جن کے ڈیزائن کولہاپوری چپلوں سے مشابہ تھے لیکن ابتدائی طور پر ان کے ماخذ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ بارہویں صدی سے تعلق رکھنے والی اس روایتی چپل کی گونج اب عالمی سطح پر سنائی دے رہی ہے۔ جیسے ہی فیشن شو کی تصاویر وائرل ہوئیں، ہندوستانی دستکاروں نے شدید احتجاج کیا جس کے بعد پراڈا کو اعتراف کرنا پڑا کہ اس کے نئے’’اوپن ٹو‘‘ جوتے قدیم ہندوستانی ڈیزائنز سے متاثر ہیں۔
ای کامرس ویب سائٹ شاپ کوپ (Shopkop) کے بانی راہل پراسو کامبلے نے پراڈا کو ایک کھلا خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ کولہاپوری چپل’’روایات میں رچی بسی‘‘ ہوتی ہے۔ اس خط کو سوشل میڈیا پر ۳۶؍ ہزار مرتبہ شیئر کیا گیا۔ ۳۳؍ سالہ کامبلے نے کہا:’’میں نے اس تنازع کو کولہاپوری چپل کو فروغ دینے کے ایک موقع کے طور پر دیکھا۔ ‘‘ان کے مطابق، گزشتہ تین دنوں میں مقامی کاریگروں سے حاصل کی گئی چپلوں کی فروخت۵۰؍ ہزار روپے (۵۸۴؍ ڈالر) تک پہنچ گئی جو معمول سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے طنزیہ میمز، تنقید اور بحث جاری ہے، جبکہ سیاستدانوں، کاریگروں اور تجارتی تنظیموں نے ہندوستانی ورثے کو اس کا جائز کریڈٹ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
