مولانا عبدالکلام آزاد ایک بہت ہی مدبر سیاست دان تھے جن کا نام برصغیر کی سیاست میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ پاکستانی حکمرانوں نے جو انداز حکمرانی اختیار کر رکھا ہے اس کی بدولت ہر چند دن کے بعد مولانا کی ستر سال قبل کی جانے والی پیشگوئیاں ان کی یاد کو زندہ کر دیتی ہیں تین روز پہلے بلوچستان میں جس طرح نو افراد کو بسوں سے اتار کر ان کی پنجابی شناخت کے باعث گولیوں سے بھون دیا گیا ۔ پنجاب میں ہر جمعہ کے روز پاکستانیوں کو ان کے اپنے ملک میں عبادت سے روکنے کے لئے ہجوم اکٹھا کرکے خوف کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے اور نمازیوں کو گرفتار کر کے عبادت گاہ کو سیل کر دیا جاتا ہے یہ دونوں اور ان جیسی دوسری مثالیں
اب روز کا معمول بنتی جا رہی ہیں ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے برصغیر کی تقسیم کے وقت کہا تھا “ جب تقسیم کی بنیاد عداوت پر رکھی جاے گی ۔ پاکستان کے قیام سے فرقہ وارانہ مسلہ حل نہی بلکہ پہلے سے زیادہ شدید اور ضرر رساں بن جاے گا ۔ ایک وقت اے گا جب صوبوں کے درمیان کشیدگی کا اندیشہ بڑھ جاے گا ۔سب صوبے اپنے جداگانہ مفاد و مقاصد کے لئے کوشاں ہوں گے جس سے پاکستان میں اندرونی خلفشار اور صوبائی جھگڑے رہیں گے ۔”
اجکل صوبہ خیبرپختونخوا اور مرکزی حکومت کے درمیان جاری جنگ وجدل کوئی چھپی ہوئی بات نہی ۔ محکمہ داخلہ بلوچستان کی طرف سے یکم جنوری سے ۳۰ جون تک کی صوبے کی امن و امان سے متعلق جاری رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں ۴۵ فیصد جبکہ سیٹلرز کی ٹارگٹ کلنگ میں سو فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ پہلے چھ ماہ میں دہشت گردی کے ۵۰۱ واقعات میں ۱۳۳ اہلکاروں سمیت ۲۵۷ افراد جاں بحق جبکہ ۱۲۳۸ اہلکاروں سمیت ۴۹۲افراد زخمی ہوے ۔ غیر مقامی افراد پر ۱۴ حملے ہو چکے ہیں جن میں ۵۲ افراد جان سے گئے جبکہ ۱۱ زخمی ہوے ۔ بم ، دستی بم ، بارودی سرنگ اور راکٹ فائر کے مجموعی ۸۱ واقعات رونما ہوے جن میں ۲۶ افرادجاں بحق اور ۱۱۲ افراد زخمی ہوے ۔ صرف گزشتہ ماہ جون میں عام شہریوں پر حملے کے ۳۹ واقعات میں ۱۱افراد جاں بحق ہوے ۔ پولیو ورکرز پر ہونے والے ایک حملہ میں ورکر جان سے گیا ۔ موبائل ٹاورز پر حملے کے ۹ واقعات میں ۲ افراد زخمی ہوے ۔ “
وزارت داخلہ بلوچستان کی اس رپورٹ میں بیان کئے جانے والے حقائق اس سے قبل روز کی خبروں میں چھپائے جاتے رہے ہیں ۔ دہشت گردی کی آڑ میں بلوچستان کی آزادی کے ان جنگجوؤں کو ہمارے اکابرین فتنۂ ہندوستان کا نام دیتے ہیں ۔ اور دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد کہہ دیا جاتا ہے کہ بے گناہوں کے خون کا بدلہ لیا جاے گا ۔ پوری طاقت سے دہشتگردی کے ناسور سے نمٹیں گے ۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے ۔جبکہ نتیجہ یہ ہے کہ ہر چند دن بعد ایک نیا دلخراش واقعہ قوم کو افسردہ کر دیتا ہے ۔ ہمارے لکھنے کا مقصد حکومت کو بیان بازی سے ہٹ کر بیرونی اور اندرونی دہشت گردی جس میں مذہبی دہشت گردی بھی شامل ہے کا سنجیدگی سے سد باب کرنے کی طرف متوجہ کرنا ہے ۔ مذہبی دہشت گردی صرف عبادات سے روکنے اور عبادتگاہوں کو تالے لگوانے تک محدود نہی بلکہ پانچسو سے زائد نوجوان بچے اور بچیاں اس مذہبی دہشت گردی کی بھیٹ چڑھ کر توہین مذہب کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جوں جوں اس مقدمہ کی سماعت آگے بڑھ رہی ہے
نئے سے نئے انکشافات ہو رہے ہیں ۔ ملاں ،وکیل، سرکاری اہلکار ، خواتین دولت کمانے کی خاطر اس مذہبی دشت گردی میں ملوث ہیں ۔عبادت گاہوں کو گند خانہ کہنے والے اور اس پر نعرہ تکبیر بلند کرنے والے سب وہ دہشت گرد ہیں جن کی دہشت گردی پر حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور حکمرانوں کی غفلت اور بے توجہی کی بدولت مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ پیشگوئی سچ ثابت ہو رہی ہے “ فرقہ وارانہ مسلہ
یعنی مذہب پہلے سے زیادہ شدید اور ضرر رساں بن جائے گا ۔
اس سے پہلے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بعض دوسری پیشگوئیاں بھی سچ ثابت ہوں حکومت کو تلخ حقائق کی طرف توجہ کرنا چائیے.