برطانیہ کی معیشت ایک بار پھر بحران کی جانب بڑھ رہی ہے، مئی 2025 میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں 0.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو اپریل میں 0.3 فیصد کمی کے بعد مسلسل دوسرا منفی مہینہ ہے۔ یہ صورتحال ملک کی اقتصادی بحالی کی رفتار پر سنگین سوالات کھڑے کر رہی ہے۔برطانوی قومی شماریاتی دفتر (ONS) کے مطابق صنعتی پیداوار میں 0.9 فیصد جبکہ تعمیراتی شعبے میں 0.6 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں اور سرمایہ کاری کی رفتار بھی متاثر ہوئی ہے۔مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح (CPI) 3.5 فیصد رہی۔ خوراک اور روزمرہ کی اشیاء خصوصاً پھل، سبزیاں، اور دودھ کی مصنوعات میں 4.4 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ فرنیچر اور گھریلو ضروریات کی اشیاء میں بھی قیمتوں کا بڑھنا جاری ہے۔بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلی نے خبردار کیا ہے کہ اگر روزگار کے شعبے میں مزید کمزوری دیکھی گئی تو اگست میں شرح سود میں کمی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت شرح سود 4.25 فیصد پر برقرار ہے، لیکن معاشی سست روی کے باعث مالیاتی نرمی کی پالیسی پر غور جاری ہے۔برطانیہ میں بیروزگاری کی شرح 4.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ چار برسوں میں بلند ترین سطح ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں سہ ماہی میں تقریباً 2.5 لاکھ نوکریاں ختم ہوئیں، خاص طور پر سروسز اور تفریحی صنعتیں زیادہ متاثر ہوئیں۔لندن سٹی کے لارڈ میئر نے برطانوی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پنشن فنڈز میں "سستے” کے بجائے "مضبوط” ریٹرن والے آپشنز کا انتخاب کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے حکومت مالیاتی خدمات میں اصلاحات پر بھی غور کر رہی ہے۔
رپورٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کے پھیلاؤ سے ملازمتوں کا مستقبل مزید غیر یقینی ہو چکا ہے۔ بہت سے شعبے، خاص طور پر مالیات، صحافت، اور کلرکل ورک، خطرے کی زد میں ہیں۔