راولپنڈی (انٹرنیشنل کارسپونڈنٹ فائزہ یونس سے )
راولپنڈی میں تھانہ نیو ٹاؤن کے ایس ایچ او کی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (RIUJ) کے صدر طارق علی ورک کو مبینہ طور پر غیر قانونی حراست اور ناروا سلوک کا نشانہ بنائے جانے پر صحافی برادری سڑکوں پر نکل آئی۔ راولپنڈی پریس کلب میں ایک ہنگامی اجلاس کے بعد شدید احتجاج کیا گیا اور "طارق علی ورک ہماری ریڈ لائن ہے” جیسے نعرے گونجنے لگے۔
احتجاجی ریلی میں صحافیوں نے حکومت پنجاب اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور 24 گھنٹوں میں ذمہ دار ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔ بصورت دیگر، سی پی او راولپنڈی آفس کے باہر غیر معینہ مدت کا دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا۔پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پولیس گردی اور ریاستی جبر کوئی نئی بات نہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، جیسے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (RSF)، بارہا پاکستان کو صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک قرار دے چکی ہیں۔ RSF کی 2024 کی عالمی پریس فریڈم رینکنگ میں پاکستان کا نمبر 150 سے نیچے رہا، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں صحافیوں کو آزادانہ طور پر کام کرنے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے خطاب میں کہا: "یہ واقعہ صرف ایک صحافی کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری صحافتی برادری کی عزت اور آزادیٔ اظہار رائے پر حملہ ہے۔ اگر فوری کارروائی نہ ہوئی تو ہم عالمی اداروں تک یہ آواز پہنچائیں گے۔”
دیگر مقررین نے کہا کہ اگر بھارت، فلسطین، یا مصر میں صحافیوں پر ریاستی تشدد ہوتا ہے تو عالمی میڈیا شور مچاتا ہے، مگر پاکستان میں یہ واقعات معمول بن چکے ہیں۔ صحافیوں کے خلاف ظلم اب بین الاقوامی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا وقت ہے۔احتجاجی مظاہرے میں آر آئی یو جے، نیشنل پریس کلب، مختلف میڈیا اداروں کے رپورٹرز، کیمرہ مین، ایڈیٹرز، سول سوسائٹی اراکین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مظاہرین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اگر ریاستی جبر کے خلاف فوری اقدام نہ ہوا تو یہ معاملہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور عالمی صحافتی تنظیموں تک پہنچایا جائے گا۔